سپریم کورٹ میں جمعرات کو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن میں تاخیر کے خلاف درخواست سننے والے پانچ رکنی بینچ کے رکن جسٹس امین الدین کی سماعت جاری رکھنے سے معذرت کے بعد اب چار رکنی بینچ مقمدے کی سماعت سنے گا۔
آج سماعت کے آغاز پر جسٹس امین الدین کی مؑزرت سامنے آئی جس کے بعد پانچ رکنی بینچ ٹوٹ گیا اور سماعت جمعے تک ملتوی کر دی گئی۔
تاہم جمعرات کی رات اگلے روز مقدمات کے حوالے سے جاری کاز لسٹ کے مطابق اب اس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر بندیال کی سربراہی میں چار رکنی بینچ کرے گا۔
بینچ میں پہلے سے موجود جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔
عدالتی عملے نے جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران حکم نامے کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ ’مقدمہ اس بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے گا جس میں جسٹس امین الدین خان نہ ہوں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔
آج جب سماعت شروع ہوئی تو بینچ میں شامل جسٹس امین الدین نے 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کیس کی سماعت سے معذرت کر لی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین پر مشتمل بینچ نے گذشتہ روز فیصلہ دیا تھا کہ جب تک عدلتی اصلاحات کے معاملے پر قانون سازی نہیں ہوتی 184/3 کے تحت تمام کیسز موخر کیے جائیں۔
انتخابات کے معاملے پر تحریک انصاف کی یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ہی دائر کی گئی تھی۔
جسٹس فائر عیسیٰ کے فیصلے میں مزید کیا تھا؟
گذشتہ روز سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’سپریم کورٹ رولز میں ترمیم تک از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں ہونا چاہیے، جب تک بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم نہیں ہوتی تمام مقدمات کو موخر کیا جائے۔‘
یہ فیصلہ انہوں نے حفاظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران دو، ایک کے تناسب سے دیا تھا۔
اس تحریری فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے از خود نوٹس کے زیر سماعت مقدمات کو موخر کرنے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ جسٹس شاہد وحید نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
دو، ایک کے تناسب سے جاری کیے جانے والے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بینچ کی تشکیل کے رولز کے مطابق خصوصی بینچز کا تصور نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیصلے کے مطابق: ’چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ بینچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو بینچ سے الگ کرے۔‘
فیصلے میں لکھا گیا کہ ’سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے۔ آئین چیف جسٹس کو اپنی مرضی کے خصوصی بینچ بنا کر اپنی مرضی کے ججز شامل کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔‘
اس فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ججز کا احتساب ہونا چاہیے۔ بینچ کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا طریقہ کار صاف شفاف ہونا چاہیے۔‘
12 صفحات پر مشتمل فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’آئین اور رولز چیف جسٹس کو سپیشل بینچ تشکیل دینے کی اجازت نہیں دیتے، آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، لیکن سوموٹو مقدمات مقرر کرنے اور بینچ کی تشکیل کے لیے رولز موجود نہیں ہیں۔ رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود مقدمات پر سماعت مؤخر کی جائے۔‘
اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں فیصلوں کے سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ آئین میں سوموٹو نامی لفظ کہیں موجود ہی نہیں ہے۔
فیصلے کے مطابق: ’ججز نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے کا حلف لے رکھا ہے۔ ججز دوسرے لوگوں کی سزا یا جزا کا فیصلہ کرتے ہیں، ججز کو احتساب سے دور رکھنا اخلاقی، قانونی اور مذہبی لحاظ سے غلط ہے۔‘
پی ٹی آئی نے درخواست کب دائر کی؟
22 مارچ کو قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’30 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں، اس لیے چاہتے ہیں کہ اکتوبر میں پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوں،‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل کو مقرر پنجاب کے صوبائی انتخابات ملتوی کرتے ہوئے آٹھ اکتوبر کی نئی تاریخ دی تھی۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن اور حکومتی فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں مشترکہ آئینی درخواست دائر کی تھی۔
25 مارچ کو دائر کی گئی اس آئینی درخواست میں وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا، وزارت پارلیمانی امور، وزارت قانون اور کابینہ کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30 اپریل کو صوبے میں انتخابات کروانے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیے جانے کی استدعا کی گئی تھی۔
صدر پاکستان عارف علوی نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط میں کہا تھا کہ وزیراعظم صوبائی حکومتوں اور وفاقی محکموں کو توہین عدالت سے بچنے اور وقت پر انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔