پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے کی سماعت سے قبل ہی پیر کو وکلا ٹولیوں کی صورت میں سپریم کورٹ کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔
وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی معمول سے زیادہ تھی اور اسلام آباد پولیس نے انتباہ جاری کیا تھا کہ سپریم کورٹ میں وہی افراد داخل ہوسکیں گے جن کے مقدمات زیرسماعت ہوں گے یا جن کو سپریم کورٹ انتظامیہ کی طرف سے اجازت نامہ جاری ہو گا۔
سپریم کورٹ جانے والے راستوں پر اضافی پولیس نفری کے باوجود وکلا وہاں پہنچے، عمارت کے احاطے کے اندر تو نہیں گئے لیکن سپریم کورٹ کے عین سامنے جھوم جھوم کر نعرے ضرور لگاتے رہے۔
وکلا کی کوئی مرکزی قیادت وہاں نہیں تھی اس لیے ہر ٹولی کی اپنی ہی قیادت تھی۔ جب کسی علاقے سے وکلا کا گروہ سپریم کورٹ کے باہر پہنچتا تو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے کچھ دیر کے لیے نہ صرف پرجوش نعرے لگاتا بلکہ سڑک پر ایک جانب سے دوسری جانب مارچ بھی کرتا۔
جو وکیل نعرے لگا چکے تھے وہ خوش گپیوں میں یا پھر تصاویر بنانے میں مصروف تھے، کیوں کہ تیز دھوپ نہیں تھی، بادل اور وقفے سے ہلکی پھوار جاری تھی۔
2007 میں عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران شاہراہ دستور پر اس سے ملتے جلتے مناظر دیکھنے کو ملتے تھے لیکن اس وقت نہ صرف وکلا کی تعداد اس سے زیادہ ہوتی تھی بلکہ سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی ان میں شامل ہوتے تھے اور وہ تحریک بن چکی تھی۔
پیر کو اکثریت صرف وکلا کی تھی اور وہ بھی ان کی جو انتخابات 90 دن ہی میں ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ بظاہر کوئی ناخوشگوار واقع تو پیش نہیں آیا لیکن کسی بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے انتظامات مکمل تھے، بکتر بند گاڑی بھی اور واٹر کینن والی بس بھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوں تو حالات معمول کے مطابق رہے لیکن شاہراہ دستور پر کیوں کہ دیگر اہم عمارتیں بھی ہیں اور سفارت خانوں کی جانب بھی ایک راستہ اس سڑک سے ہو کر جاتا ہے اس لیے ٹریفک میں خلل ضرور پڑا اور بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ بھی پریشان نظر آئے۔
اس دوران ایک سوال جو متعدد وکلا سے پوچھا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں تقسیم کی خبریں تو پہلے ہی سامنے آ چکی ہیں، اب وکلا کی مرکزی تنظیم کی جانب سے بغیر کال کے احتجاج سے کیا وکلا برداری کی تقسیم مزید واضح نہیں ہو گئی؟
گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے فخر زمان خان کا کہنا تھا کہ وہ آئین کی پاسداری چاہتے ہیں اس لیے یہاں آئے لیکن انتخابات کے بارے میں از خود نوٹس پر ججوں کی منقسم رائے پر انہوں نے خاموشی مناسب سمجھی۔ انہیں کے ایک ساتھی ایڈوکیٹ عدیل نے ہمیں بتایا کہ ’آئینی طور پہ اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن میں انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں، ہم اس لیے آئے تاکہ عدلیہ پر کوئی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔‘