اسرائیلی پولیس نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ میں دھاوا بول کر درجنوں نمازیوں کو زخمی کر دیا ہے، جبکہ 350 سے زائد کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
فلسطین کے سرکاری خبر رساں ادارے وفا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی فورسز اس وقت مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئیں جب سینکڑوں مسلمان رمضان المبارک کی شب عبادت میں مصروف تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے صحافیوں اور عینی شاہدین کے مطابق بدھ کی صبح غزہ کی پٹی سے اسرائیلی علاقے کی طرف کئی راکٹ فائر کیے گئے۔
صحافیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے تین راکٹ دور سے فائر ہوتے دیکھے جبکہ اسرائیلی فوج نے بتایا کہ غزہ کی پٹی کے ارد گرد کئی اسرائیلی شہری مراکز میں راکٹ کے وارننگ سائرن بجائے گئے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تازہ ترین تشدد کے آغاز اور اس کی وجہ کے بارے میں فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا ہے۔
ادھر اسرائیلی پولیس نے کہا کہ اس نے ’آتش گیر مادے، پتھروں اور لاٹھیوں‘ سے ’مسلح‘ نمازیوں کو نکالنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اسرائیلی اہلکار ٹانگ پر پتھر لگنے سے زخمی ہوا تھا۔
اسرائیلی پولیس نے مزید کہا کہ اس چھاپے میں درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں تازہ ترین تشدد نے فلسطینیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
غزہ میں فلسطینی گروپ حماس نے بڑے مظاہروں کی کال دی ہے اور لوگ سڑکوں پر جمع ہو کر اسرائیل کی سرحد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
واقعے کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا کہ جنوبی قصبوں میں سائرن بجنے کے بعد غزہ سے اسرائیل کی جانب نو راکٹ فائر کیے گئے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی مذمت
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ ’مسجد اقصی میں اسرائیلی تشدد کی شدید مذمت کرتے ہیں، مسجد اقصی میں اسرائیلی کارروائیوں سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا ہے کہ ’پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات نہیں ہیں اور اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں گذشتہ ایک سال کے دوران تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ رواں ماہ کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے کیوں کہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے ساتھ یہودیوں کا تہوار فسح اور عیسائیوں کا تہوار ایسٹر بھی قریب ہیں۔
فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسرائیلی پولیس کے حملے میں ربڑ کی گولیوں اور مار پیٹ سے ابتدائی طور پر سات فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی۔
لال احمر نے مزید کہا گیا کہ اسرائیلی فورسز اس کے طبی عملے کو مسجد تک پہنچنے سے روک رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسجد کے احاطے کے باہر ایک بزرگ خاتون نے روتے ہوئے روئٹرز کو بتایا: ’میں ایک کرسی پر بیٹھی قرآن کی تلاوت کر رہی تھی۔ انہوں (اسرائیلی فورسز) نے سٹن گرینیڈ پھینکے جن میں سے ایک میرے سینے پر لگا۔‘
اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ نقاب پوش آتش بازی، لاٹھیوں اور پتھروں سے ’مسلح‘ افراد مسجد کے اندر موجود تھے جس کی وجہ سے وہ کمپاؤنڈ میں داخل ہونے پر مجبور ہوئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جب پولیس اندر داخل ہوئی تو ان پر پتھراؤ کیا گیا اور مشتعل افراد کے ایک بڑے گروپ کی طرف سے مسجد کے اندر سے آتش بازی کی۔‘
فلسطینی گروپوں نے نمازیوں پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے جرم قرار دیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے کہا کہ ’ہم قابض طاقت کو مقدس مقام کی سرخ لکیر عبور کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہیں جو ایک بڑے تصادم کا باعث بنے گا۔‘
اردن اور مصرنے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے الگ الگ بیانات جاری کیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں نمازیوں پر تشدد دکھایا گیا جہاں پولیس مسجد کے اندر لوگوں کو مار رہی ہے۔
سعودی عرب کی مذمت
سعودی عرب نے بدھ کو اسرائیلی فوج کی جانب سے مسجد اقصیٰ پر حملے، نمازیوں کو زخمی کرنے اور متعدد کو گرفتار کرنے کی مذمت کی ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے ایس پی اے کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں سعودی عرب نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسرائیل کے ’صریحاً دھاوے‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔
بیان کے مطابق: ’ایسا طرز عمل امن کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ قبضے کو ختم کرنے اور مسٔلہ فلسطین کے منصفانہ اور جامع حل تک پہنچنے کے لیے تمام کوششوں کی حمایت میں اس کے مضبوط موقف کی تصدیق کرتا ہے۔‘
یہ حملہ رمضان کے مقدس مہینے میں کیا گیا جو اسلام میں روحانیت اور عبادات کا اہم وقت ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات مقدس مذہبی مقامات کے احترام کے حوالے سے بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہیں۔سعودی عرب کے ساتھ ساتھ اردن اور مصرنے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔