’وزیراعظم الیکشن سے متعلق عدالتی حکم پر عمل نہ کریں:‘قرارداد

قومی اسمبلی نے الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا کہ وزیر اعظم اور کابینہ فیصلے پر عمل نہ کریں۔

پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کو ایک اجلاس میں الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے فل کورٹ میں نظرثانی کی قرار داد منظور کر لی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چاراپریل کو پنجاب میں انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی دی گئی آٹھ اکتوبر کی تاریخ کالعدم قرار دیتے ہوئے صوبے 14 مئی کو الیکشن کا حکم دیا تھا۔

بینچ نے خیبر پختونخوا میں الیکشن کروانے کے لیے فریقین سے درخواست دائر کرنے کی ہدایت بھی کی۔

وفاقی کابینہ اور حکمران اتحاد سپریم کورٹ کے حکم پر تشویش کا اظہار کر چکے ہے اور اسی تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے گذشتہ روز حکمران اتحاد کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ آج قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جائے گی۔

آج خالد مگسی نے ایوان میں قرارداد پیش کی، جس میں متفقہ طور پر کہا گیا کہ پارلیمان تین رکنی ’اقلیتی بینچ‘ کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے اور آئین و قانون کے مطابق اکثریتی بینچ کے فیصلے کو نافذالعمل قرار دیتی ہے۔

قرارداد میں مزید کہا کہ ’یہ ایوان تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اِس خلاف آئین وقانون فیصلہ پر عمل نہ کیا جائے۔

’سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد اور اعلی عدلیہ سے سیاسی وانتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا تھا۔

’اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا لیکن اِسے منظور نہیں کیا گیا نہ ہی ایک کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف ہی سنا گیا۔‘

قرار داد کے متن میں مزید کہا گیا کہ ’پارلیمنٹ کی اس واضح قرارداد اور سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی مخصوص بینچ نے اقلیتی رائے مسلط کردی جو سپریم کورٹ کی اپنی روایات، نظائر اور طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اکثریت پر اقلیت کو مسلط کر دیا گیا ہے۔

 

’یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ میٹنگ کے فیصلوں تک سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمی کے جسٹس قاضی عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے اور ایک ایگزیکٹیو سرکلر کے ذریعے اس پر عملدرآمد روکنے کے اقدام کوگہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔

’یہ ایوان اُسی عدالتی فیصلے کو عجلت میں ایک اورمتنازع چھ رکنی بینچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر کرنے اورچند منٹوں میں اس پر فوری فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔‘

قرارداد کے مطابق: ’ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کردی گئی ہے۔ لہٰذا یہ ایوان ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے آئین اور قانون میں درج مروجہ طریقہ کار کے عین مطابق ملک بھر میں ایک ہی وقت پرعام انتخابات کرانے کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔

’یہ ایوان دستور کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اوراسے عدالت عظمی کے فیصلے کے ذریعے ازسر نو تحریر کیے جانے پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ عدالت عظمی کا فل کورٹ اس پر نظر ثانی کرے۔‘

 اجلاس میں اپوزیشن بینچوں سے نور عالم خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 2010 سے سپریم کورٹ کا آڈٹ نہیں ہوا۔ فوج، نیوی اور وزیراعظم ہاؤس کا پتا ہوتا ہے کہ کہاں خرچ ہوتا ہے لیکن ایک ادارے کا آڈٹ نہیں ہوتا تو وہ سپریم کورٹ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس قانون کے تحت آڈٹ نہیں کروا رہے تو کون سے قانون کے تحت تنخواہیں بڑھا رہے ہیں؟

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پارلیمان سے اختیارات چھیننے کی سازش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے، آئین سے کھلواڑ کی کوشش ملک کو کمزور کرسکتی ہے۔

شازیہ مری کے مطابق عدالتوں میں جتھے لائے جاتے ہیں، ہم ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر نہیں دیکھ سکتے۔

’ہر ادارے کی عزت وتقریم ہوتی ہے جس کو برقرار رکھنا ضروری ہے، عدلیہ کو ذوالفقار علی بھٹو کیس نظر کیوں نہیں آتا؟

عدالت عظمیٰ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے: شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور جو جج اس کیس سے الگ ہوئے تھے انہیں ہٹا کر فل کورٹ بنایا جائے، فل کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ انہیں قبول ہو گا۔

انہوں نے آج وکلا کمپلیکس اسلام آباد کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کوئی سیاسی جماعت الیکشن سے بھاگ نہیں سکتی، عدلیہ کا احترام سب پر لازم ہے لیکن قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 63 اے کے قانون کو ری رائیٹ کیا گیا، ہم نے اپیل دائر کی لیکن اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں، سیاسی جماعتوں کو بھی فریق نہیں بنایا گیا۔

’مضحکہ خیز قراردار‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ آج پارلیمان نے ایک ’مضحکہ خیز‘ قراردار منظور کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ آج پاس ہونے والی قرارداد پر42 لوگوں نے دستخط کیے جبکہ یہ 372 کا ایوان ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق بنیادی طور پر حکومت کہنا چاہتی ہے کہ عوام اور سپریم کورٹ جو مرضی کر لیے ہم الیکشن کرانے کو تیار نہیں۔

’سب سے پہلے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون نے فیصلے پر اعتراض کیا، اس کے بعد یہ کابینہ میں لائے۔ کابینہ سے ایک اعلامیہ جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ ہم اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ آج سے قبل کبھی کسی کابینہ نے اس قدر ’احمقانہ‘ اعلامیہ جاری نہیں کیا کیوں کہ پاکستان کا آئین تقسیم اختیارات کے فارمولے پر قائم ہے۔

’ایگزیکٹیو، پارلیمان اور عدلیہ کے اپنے اپنے اختیارات ہیں۔ تینوں ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے، ہمارے آئین کا آرٹیکل68 بھی یہی کہتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلہ مسترد کرنے والے وزرا آئین کے آرٹیکل 204، 190 اورٹو اے کی توہین کے مرتکب ہوئے۔

’ہم نے جن وزیروں سے رابطہ کیا انہوں نے کہا کہ ہم اس میں شامل نہیں، بلاول بھٹو کے آفس نے کہا کہ انہوں نے میٹنگ ہی ایٹنڈ نہیں کی۔ شیری رحمان نے بھی کہا کہ انہوں نے میٹنگ ایٹنڈ نہیں کی، اعلامیے سے ہمارا تعلق ہی نہیں۔‘

 آج فرخ حبیب نے  سیکرٹری کابینہ کو خط لکھا کر پوچھا ہے کہ اس وقت اجلاس میں کتنے وزرا شامل تھے، ایجنڈے کا نمبر کیا تھا اوع دستخط کس کس نے کیے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست