سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں التوا سے متعلق کیس میں نے فیصلہ سناتے ہوئے آٹھ اکتوبر کو پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔
فیصلے کے اہم نکات
- سپریم کورٹ نے 30 اپریل کے الیکشن کے شیڈول کو کچھ ترامیم کے ساتھ بحال کر دیا ہے۔
- عدالت نے کہا کہ آئین انتخابات کو 90 روز سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 21 فروری کو فیصلہ دیا تھا کہ 30 اپریل کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات نہیں ہو سکتے اس لیے پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔
- سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے غیر قانونی اور غیر آئینی حکم دیا تھا۔
- عدالت نے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔
- حکم نامے کے مطابق کاغذات نامزدگی 10 اپریل تک جمع کرائے جائیں گے اور حتمی فہرست 19 اپریل جبکہ انتخابی نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں گے۔
- سپریم کورٹ نے حکومت کو 10 اپریل تک فنڈ مہیا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
- وفاقی حکومت کو صوبائی انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کا حکم دیا گیا ہے۔
- فنڈز جاری نہ کیے گئے تو عدالت رپورٹس کی روشنی میں مناسب حکم جاری کرے گی۔
- وفاقی حکومت فوج رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ذریعے سکیورٹی فراہم کرے۔
- عدالتی احکامات پر اگر کسی نے تعاون نہ کیا تو الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کرے۔
- حکومت پنجاب آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں معاونت کرے گی۔
- سپریم کورٹ نے الیکشن ازخود نوٹس کیس پر 4/3 کے دعوے کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
- یہ فیصلہ صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی حد تک ہے اور خیبر پختونخوا کے حوالے سے متعلقہ فورم پر رجوع کریں کیوں کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر عدالت سے معاونت حاصل نہیں کی گئی۔
- تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
فیصلہ دینے والے ججوں کے خلاف ریفرنس دائر ہونا چاہیے: نواز شریف
-
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے فیصلے کو ’ون مین شو‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا حکم دینے والے ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا چاہیے۔
انہوں نے لندن سے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چیف جسٹس ملک کا وزیر اعظم، وزیر داخلہ، الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ بن جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے آمروں کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور ان جیسے وزرائے اعظم کو دھکا دے دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی رٹ ختم کر دی گئی ہے، پارلیمنٹ نےایک قانون پاس کیا جس کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔
نواز شریف نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الحسن نے ان کے خلاف غلط فیصلے دیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آج جیسے فیصلوں کی وجہ سے ڈالر 500 روپے تک چلا جائے گا اور اشیا لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہو جائیں گی۔
’انصاف کا قتل‘
اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران کہا کہ ’آج چار اپریل کو ایک مرتبہ پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج ہی کے دن شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا۔‘
وزیرِ قانون اعظم تارڑ نے اسمبلی میں کہا کہ ’یہ عدالتی فیصلہ پارلیمانی قرارداد سے متصادم ہے۔ آج انصاف کی صریحاً نفی ہوئی ہے۔‘
مریم نواز نے اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی کابینہ کی جانب سے فیصلہ مسترد کر دینا کافی نہیں ہے۔ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔‘
وفاقی کابینہ کی جانب سے فیصلہ مسترد کر دینا کافی نہیں ہے۔ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) April 4, 2023
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے نوڈیرو میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت بچانے کے لیے لارجر بینچ بنا دیا جائے تو ہم اس کا فیصلہ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لارجر بینچ الیکشن کا فیصلہ سنائے تو پیپلز پارٹی تو کل ہی انتخابات کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب فیصلے کے فوراً بعد تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس فیصلے سے آئین بحال ہوا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے منگل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کیے جانے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا ہے۔
اس سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کو دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے اختتام پر ریمارکس دیے تھے کہ ’تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ پارلیمنٹ اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونے کا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہو گی۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ ’سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وفاقی حکومت اگر انتخابات کروانے کی یقین دہانی کروائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے۔ وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا۔‘
بقول چیف جسٹس: ’سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔‘
پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن کیس: کب کیا ہوا؟
پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کیے جانے کے فیصلے کے خلاف 25 مارچ کو سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان اور سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی کے توسط سے ایک آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
اس آئینی درخواست میں وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا، وزارت پارلیمانی امور، وزارت قانون اور کابینہ کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30 اپریل کو صوبے میں انتخابات کروانے کا حکم دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست 27 مارچ کو سماعت کے لیے منظور کی اور اسی روز کیس کی پہلی سماعت ہوئی۔
کیس کی سماعت کے لیے چیف جسٹس نے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا، جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔
جسٹس امین الدین خان نے 30 مارچ کو کیس سننے سے معذرت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے 31 مارچ کو کیس سننے سے معذرت کی۔ اس کے بعد تین رکنی بینچ نے 31 مارچ اور تین اپریل کو پانچویں اور چھٹی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن کے وکلا اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرلز کے دلائل سنے۔ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ نے عدالتی حکم پر پیش ہو سکیورٹی اور فنڈز سے متعلق جوابات دیے جبکہ عدالت نے حکومتی اتحاد کے وکلا کو عدالتی بائیکاٹ کی وجہ سے سننے سے انکار بھی کیا۔
سپریم کورٹ میں فاسٹ ٹرائل کی طرز پر آٹھ دنوں میں اس کیس کی چھ سماعتیں ہوئیں، جس کے بعد پیر (تین اپریل) کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز کا عبوری حکم غیر موثر قرار
سپریم کورٹ نے میڈیکل طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر 20 نمبر دینےکا ازخود نوٹس کیس بند کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹسز کے حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے پر چھ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس کے سربراہ بینچ جسٹس اعجازالاحسن تھے۔ بینچ نے پانچ منٹ کی سماعت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔
مقدمہ حافظ قرآن کو اضافی 20 نمبر پر از خود نوٹس کا تھا۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس میں دیے گئے تمام عبوری حکم نامے غیر موثر قرار دے دیے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یہ ازخود نوٹس بند کیا جاتا ہے، ازخود نوٹس اور اس کے دیگر اثرات پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
فیصلے پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے: وزیرِ قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ ابہام دور کرنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’انتہائی اہم مسئلہ طے کرنے کے لیے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کو اجتماعی دانش سے فیصلہ دینا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یکم مارچ کو جب فیصلہ آیا تو ہمارا مؤقف تھا کہ یہ چار، تین سے فارغ ہوا ہے۔ جب چاروں ججز نے اپنے فیصلے میں پیٹیشنز خارج کر دی تھیں تو ہر چیز واضح ہو گئی تھی۔ کل اٹارنی جنرل نے مشورہ دیا تھا کہ نو میں سے باقی ماندہ چھ ججز کا ایک بنچ بنا دیا جائے۔ جو کل وزیراعظم نے پارلیمان سے بات کی تھی وہ درست تھی۔‘
اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر جسٹس فائز عیسی نے کچھ مقدمات کو سماعت سے روکا تھا تو پھر چھ رکنی بنچ عدالت کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر ایک اور چھ رکنی بینچ بنا دیا گیا۔
’عدالت نے سرکلر جاری کرنے یا ایگزیکٹیو آرڈر کی بجائے چھ رکنی بینچ تشکیل دیا۔ پہلے تین رکنی بینچ کا فیصلہ رد کیا، پھر اسی فیصلے پر چھ رکنی بینچ بنا دیا۔ جو بینچ بنایا گیا اس پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سینیئر ججوں کو تمام معاملات سے دور رکھا جا رہا ہے۔ کچھ ججوں کو اس بینچ کا حصہ نہیں بنایا جا رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔ آپ 13 رکنی بنچ بٹھائیں جو ان معاملات کو دیکھے۔ میں نے چیف جسٹس سے استدعا کی تھی کہ عدالت کو اکٹھا رکھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج کابینہ کا اجلاس ہے اس میں مزید مشاورت ہو گی۔‘