سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے باعث ہونے والی اموات پر پولیس تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے علاقے میں کارخانے قائم کرنے کے اجازت ناموں کے طریقہ کار پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔
جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات سے متعلق بھی رپورٹ طلب کر لی، جبکہ ایس پی انویسٹی گیشن کی رپورٹ کو مسترد کر دیا۔
کراچی کے علاقے کیماڑی ٹاؤن میں 5 سے 31 جنوری کے درمیان زہریلی گیس کے اخراج کی وجہ سے کمسن بچوں سمیت 18 افراد کی اموات اور فروری 2021 میں پراسرار گیس کے اخراج کے بعد بندرگاہ کے قریب آبادیوں میں 10 اموات ہوئیں، جبکہ 300 افراد متاثر ہوئے تھے۔
ان واقعات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ 2021 میں نو ہلاک ہونے والوں کی لاشوں میں سے چار کی پوسٹ مارٹم رپورٹس آ چکی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسارہ کیا کہ سال رواں کے دوران گیس کے اخراج کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بعد علاقے میں موجود فیکٹریوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ فیکٹریوں کو سیل کر دیا گیا ہے، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفتشی افسر جائے گا اور پانچ ہزار روپے لے کر فیکٹریاں ڈی سیل کر دے گا۔
اسسٹنٹ کمشنر کیماڑی نے بھی عدالت کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے فیکٹریاں سیل کر دی گئی ہیں۔
عدالت نے متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے دریافت کیا: ’ایک غیر قانونی فیکٹری چل رہی ہے، اس کو بند کیوں نہیں کیا گیا؟ فیکٹریاں کیسے سیل کی گئیں ہیں؟ سیل کرنے کے علاوہ کوئی کارروائی ہوئی؟ اتنے طاقت ور لوگ ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے فیکٹریاں لگا دیں؟ فیکٹریوں کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی کیوں نہیں ہوئی؟ زہریلی گیس سے اتنی اموات ہوئیں، پوری آب و ہوا زہریلی ہو گئی اور آپ نے صرف سیل کر کے جان چھڑا لی؟‘
اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے اس کیس میں ایکشن کے متعلق ہدایات طلب کیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کسی جگہ کوئی غیر قانونی کام ہو رہا ہے تو کیا جب عدالت ہدایت دے گی تب کارروائی کریں گے؟ ہم نہیں چاہتے کہ انتظامی اختیارات میں مداخلت کریں۔
عدالت نے کمشنر کراچی، ڈی سی کیماڑی، ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) کراچی ساؤتھ کو طلب کر لیا اور سماعت 10 اپریل تک ملتوی کر دی۔
کیماڑی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں جنوری میں جان سے جانے والے چار سالہ اظہر علی کے والد شکور احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں موجود گودام نما کارخانوں کو حادثات کے بعد محض چند روز کے لیے سیل کیا گیا تھا۔ ’اب وہ تمام کارخانوں کی سیلیں توڑ دی گئی ہیں اور رات کے اوقات کارخانوں سے سامان بھی نکال لیا گیا ہے۔‘
جنوری میں اس خبر کو بریک کرنے والے نجی ٹی وی ’ڈان نیوز‘ کے صحافی اسماعیل ساسولی کے مطابق چند کارخانوں میں دوبارہ سے کام بھی شروع ہو گیا ہے۔
مواچھ گوٹھ میں اموات کی وجوہات جاننے کے لیے محکمہ صحت کی تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ نے گزشتہ روز رپورٹ جاری کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ابتدائی طور پر خسرہ سے اموات کی اطلاع ملی تھی، تاہم مرنے والوں کے جسموں پر خسرے کے نشانات نہیں ملے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر نسیم احمد کی سربراہی میں بنائے جانے والے اس میڈیکل بورڈ میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر مخدوم پرویز احمد، پولیس سرجن سمعیہ سید اور سول ہسپتال کراچی کے ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلو بھی شامل تھے۔
میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق : ’مرنے والوں کی پوسٹ مارٹم، ہسٹوپیتھولوجی، ٹاکسیکولوجی اور وائرولوجی رپورٹس کے بعد ممکنہ طور پر تمام اموات علاقے میں موجود غیر قانونی کارخانوں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کے باعث ہوئی تھیں۔‘
میڈیکل بورڈ نے عدالتی اجازت پر آٹھ لاشوں کو قبروں سے نکال کر مختلف میڈیکل ٹیسٹ کیے تھیں۔
مقامی افراد کے مطابق ان کارخانوں میں مختلف اقسام کے تیل بنائے جاتے ہیں اور حال ہی میں ایک نئی فیکٹری کھولی گئی ہے، جس میں پتھر جلاکر کوئی دھات حاصل کی جاتی ہے۔
میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے علاقے کے دورے کے دوران وہاں موجود کارخانے بند ہونے کے باعث ہوا میں زہریلی گیس کی موجودگی کے اثرات حاصل نہیں کیے جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ اموات ایک ہی فیکٹری سے پانچ جنوری کو ہونے والے گیس کے اخراج کے باعث ہوئیں۔