پاکستان میں زرعی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے: کسان اتحاد

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد محمود کھوکھر نے ملک میں خوراک کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں زرعی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دس کلو آٹے کے لیے لائن میں کھڑے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد محمود کھوکھر نے ملک میں خوراک کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں زرعی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بدھ کو کوئٹہ میں ’زراعت بڑھاؤ ملک بچاؤ‘ مہم کے تحت ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں سرحد پر خوراک کی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہم پاکستان فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کی زمینیں آباد کرنے کے لیے اقدامات کرے۔‘

خالد محمد کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم زراعت بڑھاؤ، پاکستان بچاؤ کے نعرے کے ساتھ ایک مہم چلا رہے ہیں، جس کے تحت ہم پورے پاکستان میں پریس کانفرنس کے ذریعے آواز بلند کر رہے ہیں، جس کے بعد ملک بھر کے کسانوں کے نمائندے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر کے اپنی سفارشات وفاقی حکومت اور صوبوں کو بھجوائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’زرعی ملک ہونے کے باوجود ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دس کلو آٹے کے لیے لائن میں کھڑے ہیں اور لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں، اس سے زیادہ تشویش ناک صورت حال اور کیا ہو سکتی ہے۔‘

خالد محمود نے بتایا: ’ہم اس وقت 14 سے 15 ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کر رہے ہیں، جہاں سے 15 ارب لیا جاتا ہے، اس میں سرمایہ کاری کچھ نہیں ہے، ہماری معیشت کا دارومدار بھی زراعت پر ہے، اگر زراعت بہتر ہو گی تو معیشت بہتر ہو گی اور اس سے امن و امان خود بخود بہتر ہو جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے پریس کانفرنس کے دوران بھی یہی اپیل آرمی چیف عاصم منیر سے کی کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور فوج نے جس طرح ضلع کیچ کے علاقے میرانی ڈیم میں زمینوں کو آباد کر کے کاشت کاروں کو دیں اسی طرح وہ اپنی انجینیئرنگ کی مشینری کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچستان کی باقی زمینوں کو بھی آباد کریں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت خوراک کی حفاظت کا مسئلہ پہلے نمبر پر اور سرحد کا معاملہ دوسرے نمبر پر چلا گیا ہے، اس لیے فوری طور پر زرعی ایمرجنسی لگانے ہو گی۔ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے، یہاں سے ہم اتنی پیداوار لے سکتے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کا کھلانے کے لیے کافی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس 1.8 کروڑ ایکٹر زمین ہے، جس کو آباد کیا جا سکتا ہے، وہ کون کرے گا، کیا کسان میں اتنی طاقت ہے، کیا کسان جی پی ایس نظام لگا سکتا ہے، کسان پانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی لا سکتا ہے، ہمارے پاس پانی کی کمی ہے، کاشت کار کے پاس تین سے چار ایکڑ کی جو زمین ہے اس سے صرف اس کا گھر چلتا ہے۔‘

خالد محمود نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ملک کی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اپنی ذات کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کی جنگ یعنی عوام کی جنگ کوئی نہیں لڑ رہا، آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عام لوگوں کو نکلنا ہو گا، آواز بلند کرنا ہو گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بلوچستان پاکستان کے لیے سونے کی چڑیا ہے، چین میں صحراؤں میں 100 فیصد کاشت ہو رہی ہے، بھارت کے راجستھان کو دیکھ لیں، بھارت میں 70 فیصد کپاس بارانی ہے، ہمارے پاس ایک ایکڑ بھی نہیں ہے، جس طرح چین کے بانی رہنما ماؤ نے فوج کو کسان کے ساتھ کھڑا کر دیا، لیکن اس کو اضافی تنخواہ نہیں دی، اسی طرح دنیا کے 21 ممالک میں اسی فارمولے کا استعمال کیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کسان اتحاد پاکستان کے چیئرمین نے زرعی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے، ملتان میں کپاس کی تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ ہے، لیکن اس کے ملازمین کو دس ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تو تحقیق یہاں پر خاک ہو گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ہر چیز باہر سے منگواتے ہیں، گندم، دالیں، ہم اپنے بچوں کو یہ دے کر جائیں گے کہ دیکھتے رہیں کہ بیرون ملک سے گندم آئے گی تو وہ کھائیں گے، ہماری عورتیں ہر وقت لائنوں میں ہی لگی رہیں گی، آج دو لائنیں لگی ہیں، کسان یوریا کھاد کی لائن میں اور خواتین آٹے کی لائن میں لگی ہوئی ہیں۔‘

خالد محمود کھوکھر کے مطابق: ’حکومت کی ترجیحات میں زراعت کبھی نہیں رہی ہے، سب سے کم بجٹ زراعت کو دیا جاتا ہے، اور سب سے زیادہ جھوٹ بھی زراعت پر بولا جاتا ہے کہ اس کے لیے 18 ارب کا پیکج دیا ہے، یہ سب کچھ جھوٹ ہے، اس پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بہترین قسم کی کپاس پیدا ہو سکتی ہے، اسی طرح پنجگور اس کے قریب علاقوں میں گندم کی بہترین فصل تیار کی جا سکتی ہے، یہاں پر کاشت کاروں کو بجلی دینے، سولر کی سہولت اور مارکیٹنگ کے جدید طریقوں سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے، صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان میں زمینداروں کو چار گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔‘

 پریس کانفرنس میں زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے رہنما ملک نصیر شاہوانی اور دیگر بھی موجود تھے۔ 

زمیندار ایکشن کمیٹی کے صدر ملک نصیر شاہوانی نے اس موقع پر کہا کہ ’چار سال میں تعمیر ہونے والی کچھی کینال دس سال کے باوجود مکمل نہ ہو سکی، صوبے کے عوام کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے، زرعی صارفین کو ضرورت کے مطابق بجلی فراہم نہیں کی جا رہی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت