کراچی سے 378 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر ضلع نوشہرو فیروز میں ہالانی کے تاریخی علاقے میں محراب خان مسجد واقع ہے، جسے تعمیری اور تخلیقی اعتبار سے ایک شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔
مقامی رہائشی محمد رمضان کمبوہ کے مطابق یہ مسجد اٹھارویں صدی میں تعمیر کروائی گئی تھی، جو سندھ کی ثقافت کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں رمضان کمبوہ نے بتایا: ’یہ مسجد سردار محراب خان نے 1780 میں بنوائی تھی۔ اس مسجد کا نام بھی انہی سے منسوب ہے۔ انہوں نے مزدوروں کو حکم دیا کہ وہ ایسی مسجد قائم کریں جس کے اندر ایک پوشیدہ حجرہ ہو اور جو تعمیرات کا شاہکار ہو، اسی حکم پر مزدوروں نے شب و روز محنت سے اسے تعمیر کیا۔‘
اس مسجد میں منبر کے ساتھ دو کھڑکیاں اس ترتیب سے بنائی گئی ہیں، جن سے قمری مہینے کے آغاز کا درست اندازہ ہوتا ہے۔
محمد رمضان کمبوہ کے مطابق: اگر دائیں والی کھڑکی سے چاند نظر آیا تو یہ 29 دن کا ہوگا اور اگر بائیں والی کھڑکی سے نظر آیا تو یہ 30 دن کا چاند ہوگا۔‘
بعد نماز مغرب مقامی افراد ان کھڑکیوں سے آسمان پر چاند باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اس مسجد میں برسوں سے یہی طریقہ رائج ہے۔
مسجد میں روشنی اور ہوا کے لیے ایک بڑا گنبد اور چار چھوٹے گنبد بنائے گئے ہیں جبکہ اس میں نماز کے لیے سو سے زائد افراد کی گنجائش ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم یہ مسجد مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے اپنی اصل خوبصورتی کھو رہی ہے۔
مقامی سماجی رہنما اقبال گاڈی نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا: ’یہ مسجد کمال فن کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ اس علاقے میں امن اور محبت کی علامت بھی ہے۔ ہمارے بزرگوں کی روایت رہی ہے کہ اپنے بچوں کی شادی اور دیگر رسومات قمری تاریخ کے مطابق طے کرتے تھے، اس مسجد میں جو سوراخ ہیں ان کی بدولت درست تاریخ طے کرنے کی سہولت انہیں حاصل تھی۔ اب تو ترقی یافتہ دور ہے، ہلال کمیٹیاں کام کرتی ہیں مگر اس مسجد سے بہت فائدہ ہوا۔‘
اقبال گاڈی کے مطابق اس مسجد کی تعمیرات کے حوالے سے بہت سی روایات تاریخی کتب میں ملتی ہیں۔
مقامی صحافی سید جانی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ مسجد اس علاقے میں خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس دور میں اس علاقے میں امن و محبت اور بھائی چارے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسجد کے قریب ہی ایک مندر بھی واقع ہے جو اپنی تاریخی اہمت رکھتا ہے۔ سالوں سے یہاں مقامی افراد مل جل کر رہتے ہیں، کبھی ہندو مسلم جھگڑا یہاں نہیں ہوا۔‘