آج میرے ذہن میں چین میں گزرے اپنے پانچ سال ایک مووی کی طرح چل رہے ہیں۔
میں نے ان پانچ سالوں میں بہت کچھ دیکھا، بہت کچھ سیکھا اور پہلے سے بہت کچھ سیکھا ہوا بھلایا۔
میں نے وہاں دیکھا کہ چینیوں کی اکثریت کسی مذہب کو نہیں مانتی۔ میں سمجھتی تھی کہ اخلاقیات صرف مذہب سے آتی ہیں لیکن وہاں رہ کر میں نے سیکھا کہ یہ تو بنیادی باتیں ہوتی ہیں جو انسانوں کو مہذب معاشرے بنانے کے لیے اپنانی پڑتی ہیں۔
چینی لادین ہونے کے باوجود ایماندار ہیں، محنتی ہیں اور اپنی بات کے پکے ہیں۔ ان پانچ سالوں کے دوران مجھے وہاں کبھی اپنی شناخت کی وجہ سے کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
چینی دوسروں کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہیں۔ وہاں کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں حلال گوشت آسانی سے مل جاتا ہے۔ چین کے ہر تعلیمی ادارے میں مسلمان طالب علموں کے لیے حلال کیفے ٹیریا موجود ہے۔ حلال ریستوران بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔
مسجد، چرچ، مندر جہاں جانا ہو جا سکتے ہیں۔ کوئی عبایہ پہن کر گھومنا چاہے، گھومے۔ کوئی لمبی سی داڑھی رکھنا چاہے، رکھے۔ چینیوں کو کسی کے مذہبی عقائد سے کوئی غرض نہیں۔ ہاں جب لوگ اپنا عقیدہ دوسروں پر تھوپنا شروع کر دیں تب چینی حکومت حرکت میں آ جاتی ہے۔
یونیورسٹی کے دوسرے سمسٹر میں ایک پروفیسر اپنی ہر کلاس کے بعد ہمیں کھانے پر لے جاتے تھے۔
انہوں نے پہلی دفعہ سب کو کھانے کی دعوت دی تو ہم سب ہی انہیں حیرانی سے دیکھنے لگے۔ انہوں نے کہا آپ یہاں صرف پڑھنے تو نہیں آئے۔ چین، اس کے عوام اور اس کی ثقافت سے روشناس ہونے بھی آئے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بھی موقع ہے کہ ہم آپ کے ممالک کے بارے میں جانیں۔ تو چلیں کھانے پر چلتے ہیں۔
ہم تین مسلمان طالب علم ایک طرف ہو گئے اور سوچنے لگے کہ کیا بہانہ کریں۔ اتنے میں پروفیسر کی آواز آئی، یہاں پاس میں ایک حلال ریستوران ہے۔ وہاں چلتے ہیں۔ وہاں سب کے لیے سب کچھ مل جائے گا۔
رمضان آئے تو کچھ مسلمان طالب علم سوچنے لگے کہ وہ سحری کیسے کریں گے۔ یونیورسٹی کا حلال کیفے ٹیریا اپنے روزمرہ کے اوقات کے مطابق ہی کھلتا اور بند ہوتا تھا اور ہاسٹل کا باورچی خانہ رات دس بجے بند کر دیا جاتا تھا۔ کمروں میں کھانا بنانے یا گرم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
تھوڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ سب مل کر ہاسٹل انتظامیہ کے پاس جاتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں۔ ایک طالب علم کو چینی زبان آتی تھی۔ اسے آگے کر دیا۔ وہ تھوڑی دیر ہاسٹل انتظامیہ سے بات کرتا رہا۔
بات ختم ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ رمضان میں سحری کرنے والوں کے لیے روزانہ ایک گھنٹہ باورچی خانہ کھولنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ بس اتنی سی شرط ہے کہ اس دوران شور نہ ہو تاکہ ہاسٹل میں مقیم باقی طالب علم پریشان نہ ہوں اور باورچی خانے کی صفائی ستھرائی کا دھیان رکھا جائے۔
پھر ہم سے باقاعدہ ایک صفحے پر دستخط لیے گئے۔ اس دن کے بعد سے یونیورسٹی ہاسٹل ہر سال رمضان میں اپنا باورچی خانہ رات کو مسلمان طالب علموں کے لیے کھولتے ہیں۔
کچھ طالب علم باجماعت تراویح بھی پڑھنا چاہتے تھے۔ انہیں اس کی اجازت نہیں ملی۔ انہیں کہا گیا کہ اپنے کمروں کے اندر پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں ورنہ قریبی مسجد چلے جائیں۔ ہاسٹل کے کاریڈور میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ملے گی کیونکہ اس سے باقی لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔ کچھ طالب علموں نے اس پر منہ بنایا، پھر سب نے اپنے اپنے حل نکال لیے۔ کوئی چینی مسجد چلا جاتا تھا، کوئی اپنے سفارت خانے کی مسجد چلا جاتا تھا تو کوئی اپنے کمرے میں ہی تراویح پڑھ لیتا تھا۔
ہماری یونیورسٹی کی ایک روایت تھی۔ وہ نئے قمری سال کے موقع پر بیرون ملک سے آئے ہوئے طالب علموں کو فروزن ڈمپلنگز کا ایک پیکٹ دیتے تھے اور شام کو یونیورسٹی کے سب سے بڑے کیفے ٹیریا میں کھانے پر بلاتے تھے۔
ہم سے کئی دن پہلے ہی پوچھ لیا جاتا تھا کہ ہم مسلمان ہیں یا غیر مسلمان۔ مسلمانوں کے لیے حلال ڈمپلنگز کے پیکٹ آتے تھے۔
جب پہلی بار کھانے کی دعوت ملی تو ہم بس ایسے ہی دیکھنے چلے گئے۔ وہ کیفے ٹیریا حلال نہیں تھا تو ہمیں لگا کہ ہمارے لیے وہاں شاید سافٹ ڈرنکس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ وہاں جا کر ہمیں حیرانی ہوئی کہ ہمارے حلال کیفے ٹیریا کا سٹاف ایک طرف کھانوں کے سٹال لگائے کھڑا ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک بار یونیورسٹی سے باہر جاتے ہوئے ایک چینی طالب علم ملا۔ ہم دونوں ایک ہی سمت میں جا رہے تھے تو بات چیت کرنے لگے۔ اس نے مجھ سے پوچھا میں کہاں سے ہوں۔ میں نے کہا پاکستان۔ اس نے کہا پاکستان اور چین بہترین دوست ہیں۔ میں نے جواب میں ایسے ہی کہہ دیا کہ تم پاکستان ضرور آنا۔ اس نے کہا سوری، میں پاکستان نہیں آ سکتا۔ میں نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیوں۔ اس نے کہا کچھ دن پہلے ہی وہاں کچھ چینیوں پر حملہ ہوا ہے۔ مجھے نہیں لگتا پاکستان ہمارے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ میں ایک دم چپ ہو گئی۔
میں جب بھی چین میں گزرے اپنے پانچ سالہ قیام کو یاد کرتی ہوں تو میرے ذہن میں اچھی یادیں ہی آتی ہیں۔ چین نے مجھے تحفظ دیا، ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا، تعلیم دی، ایک نئی شناخت دی، ایک دبو سی لڑکی سے بڑھ کر کچھ بننے کا اعتماد دیا۔
دوسری طرف ہم نے چینیوں کو کیا دیا۔ کچھ ماہ پہلے ایک نجی چینل کے ٹی وی پر ایک نیوز رپورٹ دیکھی تھی۔ اس میں ایک مقامی پاکستانی بڑے فخر سے رپورٹر کو بتا رہا تھا کہ وہ سائٹ پر رہنے والے چینیوں کا ہر دوسرے دن فریج آ کر چیک کرتا ہے اور انہیں کوئی بھی غلط چیز کھانے سے منع کرتا ہے۔
کبھی ذہن میں سوچ آتی ہے کہ چینی پاکستان سے واپس جا کر اپنے یہاں کے قیام کے بارے میں کیا کہتے ہوں گے۔ پھر ذہن کو سمجھاتی ہوں کہ ایسی باتیں نہ سوچا کرو۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔