چین میں آج بروز بدھ ’چھنگ منگ تہوار‘ منایا جا رہا ہے۔ اس تہوار کو انگریزی زبان میں ’ٹوم سویپنگ فیسٹیول‘ (قبروں پر جھاڑو دینے کا تہوار) کہا جاتا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
چینی اس تہوار پر اپنے وفات شدگان کو یاد کرتے ہیں، ان کی قبروں پر جاتے ہیں اور وہاں صفائی اور مرمت کا کام کرتے ہیں۔
وہ اپنے ساتھ پھول، نقلی کرنسی نوٹ، اگربتیاں اور کھانے پینے کی مختلف اشیا لے کر جاتے ہیں اور انہیں قبر کے سرہانے رکھ آتے ہیں۔ چینیوں کا خیال ہے کہ ان کے پیاروں کو دوسری دنیا میں ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس تہوار کے موقعے پر چین میں تین روزہ عام تعطیل ہوتی ہے۔
اس وقت چین میں بہار بھی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ چینی جگہ جگہ رک کر ان پھولوں کی تصاویر لے رہے ہوتے ہیں۔
ان دنوں چینی میسیجنگ ایپ وی چیٹ کے مومنٹس (سٹیٹس) پھولوں کی تصاویر سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
چینی ان چھٹیوں میں خاص طور پر پارکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان دنوں ہر پارک میں انسانوں کا سمندر موجود ہوتا ہے جو پارک کے ہر حصے میں اپنی اور اپنے پیاروں کی تصاویر لے رہا ہوتا ہے۔
اس سال چین میں کچھ ووکیشنل کالجوں نے اپنے طالب علموں کو اس موقعے پر ایک ہفتے کی چھٹیاں دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان چھٹیوں میں محبت سے لطف اندوز ہوں۔
ایک ادارے نے اپنے نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ طالب علم ان چھٹیوں میں فطرت سے پیار کریں، زندگی سے پیار کریں اور محبت سے لطف اندوز ہوں۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ چین میں گرتی ہوئی شرح پیدائش میں اضافہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
چین نے 1980 میں ایک بچہ پالیسی نافذ کی تھی جو 2015 تک لاگو رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد چینیوں کو فی خاندان دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ جون 2021 میں اس تعداد کو تین تک بڑھا دیا گیا تھا۔ تاہم، چینی عوام ابھی تک اس نئی پالیسی کو قبول نہیں کر سکے ہیں۔
ایک تو چین میں بچہ پیدا کرنا اور اسے پالنا بہت مہنگا ہے۔ دوسرا، بہت سے چینی ایک بچہ پالیسی کے بعد حکومت کی طرف سے ہونے والی سخت کارروائیوں پر بھی غصہ ہیں۔
تیسرا، نئی چینی نسل میں بہت سے لوگ پیار، محبت اور شادی کے تصورات کو نہیں مانتے یا ان سے دور بھاگ رہے ہیں۔
نئی نسل میں بہت سے افراد ہم جنس پرستی کی طرف راغب ہیں۔ چینی حکومت کو وہ بھی منظور نہیں۔ حالانکہ چین میں ہر جگہ ہم جنس پرست جوڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔
نئی نسل ہم جنس پرستی کو برا نہیں سمجھتی لیکن یہ تصور چینی ثقافت کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ پھر اس کی وجہ سے چین کی آبادی مزید کم ہو جائے گی جو اس وقت چینی حکومت نہیں چاہتی۔
چین کے شماریات کے قومی بیورو نے سنہ 2022 میں اپنی 1.4 ارب کی آبادی میں تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ افراد کی کمی کی اطلاع دی تھی۔ یہ چین کے عظیم قحط کے آخری سال 1961 کے بعد دیکھی جانے والی بڑی تعداد ہے۔ چین میں گذشتہ سال شرح پیدائش ایک ہزار افراد میں صرف 6.7 فی کس تک رہ گئی تھی۔ یہ چین کی تاریخ میں اب تک کی سب سے کم ترین شرح پیدائش ہے۔ اس سے ایک سال قبل یہ شرح 7.25 تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2050 تک چین کی آبادی میں 10 کروڑ 90 لاکھ تک کی کمی متوقع ہے۔ یہ پیشن گوئی ان کے 2019 میں لگائے جانے والے اضافے سے تین گنا زیادہ ہے۔
اسی وجہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ چین امیر ہونے سے پہلے بوڑھا ہو جائے گا۔ خصوصاً کرونا کی عالمی وبا کے بعد صحت اور فلاح و بہبود کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے آمدنی میں کمی اور حکومتی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے معیشت سست ہو جائے گی۔
اسی لیے چین مختلف طریقوں سے اپنی نئی نسل کو آپس میں ملنے جلنے اور رابطے بڑھانے کی ترغیب دے رہا ہے۔
چینی تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی ایسی کسی حرکت کو برا نہیں سمجھا جاتا۔
چین کے بیشتر تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاسٹل علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ ان کے ایک دوسرے کے ہاسٹل میں آنے جانے پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ تاہم، وہ اپنے اداروں کے بقیہ حصوں میں وہ آپس میں باآسانی مل سکتے ہیں۔
چینی ادارے ان کے ملنے جلنے کو برا نہیں سمجھتے بلکہ اسے عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسی لیے چینی ادارے اپنے طالب علموں کو چھنگ منگ فیسٹول کے دوران فطرت سے قریب ہونے اور محبت سے لطف اندوز ہونے کا کہہ رہے ہیں۔ ان اقدامات سے چین کی شرح پیدائش اور آبادی میں فوری اضافہ تو نہیں ہو گا تاہم کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔