خیبر پختونخوا: صحت کارڈ پروگرام عارضی بندش کے بعد بحال

خیبر پختونخوا کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر عابد جمیل کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس فی الحال اتنے پیسے نہیں ہیں کہ انشورنس کمپنی کو دیے جا سکیں لیکن کوشش کر رہے ہیں کہ فنڈز کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔

صحت کارڈ پروگرام پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت نے عوام کی سہولت کے لیے شروع کیا تھا (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا میں مفت علاج کی سہولت کا پروگرام ’صحت سہولت پروگرام‘ ایک روز کی عارضی بندش کے بعد جمعرات کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔

صحت کارڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ریاض تنولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ جمعرات کو حکومت اور انشورنس کمپنی کے مابین نشست ہوئی جس میں انشورنس کمپنی نے قسطوں میں بقایہ جات وصول کرنے کی ہامی بھر لی ہے۔

ریاض تنولی نے بتایا کہ ’پروگرام صوبے کے تمام پینل ہسپتالوں میں آج دوبارہ شروع کیا گیا۔ بقایہ جات میں ابتدائی طور پر حکومت نے دو ارب روپے جاری کیے ہیں۔‘

اس پروگرام کو کل یعنی بدھ کو سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی نے عارضی طور بند کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ صوبائی نگران وزیر صحت نے فنڈز کی عدم دستیابی بتائی تھی۔

تاہم وزیر صحت نے یہ بھی بتایا تھا کہ انشورنس کمپنی کے دو مہینے کے آٹھ ارب روپے واجب الادا ہیں لیکن ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے لیے انشورنس کمپنی سے درخواست کریں گے۔

سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی نے بدھ کو تمام رجسٹرڈ ہسپتالوں کو ایک مراسلے کے ذریعے اس پروگرام کے تحت مزید مریضوں کا علاج کرنے سے عارضی طور پر روک دیا تھا۔

مراسلے میں لکھا گیا تھا کہ ’صحت کارڈ پروگرام کے تحت مزید مریضوں کو 20 اپریل سے علاج کے لیے داخل نہ کیا جائے۔ ہسپتالوں میں صحت کارڈ ہیلپ ڈیسک کے کاؤنٹرز بھی بند رہیں گے۔‘

صحت کارڈ پروگرام کو صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت نے عوام کی سہولت کے لیے شروع کیا تھا جس کے تحت صوبے کے تمام شہریوں کے لیے فی کس تین لاکھ تک علاج مفت دیا جا رہا تھا۔

اس پروگرام میں کینسر، ایڈز اور سائیکاٹریک امراض کے علاوہ باقی تمام تر بیماریوں کا مفت علاج شامل تھا۔

خیبر پختونخوا کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر عابد جمیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس بارے میں بتایا کہ صحت کارڈ پروگرام میں انشورنس کمپنی کو 14 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں جبکہ کمپنی کو ماہانہ چار ارب روپے دینا پڑ رہے ہیں۔

ڈاکٹر عابد جمیل نے بتایا کہ ’حکومت کے پاس فی الحال اتنے پیسے نہیں ہیں کہ انشورنس کمپنی کو دیے جا سکیں لیکن کوشش کر رہے ہیں کہ فنڈز کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔‘

ڈاکٹر عابد جمیل کے مطابق ’صحت کارڈ کے ذریعے صرف غریبوں کو علاج ممکن ہو سکے گا اور بغیر منصوبہ بندی کے کسی بھی پروگرام کو شروع کرنے کا یہی نتیجہ نکلے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس پروگرام کی سسٹینیبیلیٹی کا مسئلہ ہے لیکن موجودہ وقت میں ہم انشورنس کمپنی سے میٹنگ کر کے یہ درخواست کریں گے کہ پروگرام کو بند نہ کریں اور ہم قسطوں میں فنڈز دینے کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عابد جمیل نے بتایا کہ ‘کل سٹیٹ لائف انشورنس سے بات کریں گے کہ فل پیمنٹ تو ہم نہیں کر سکتے لیکن قسطوں میں دینے کی بات کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سو فیصد کوریج کا یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے اور اب ہمیں فنڈز کا مسئلہ ہے۔‘

اس حوالے سے صحت کارڈ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ریاض تنولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مارچ اور اپریل میں انشورنس کمپنی کو آٹھ ارب روپے دینے تھے۔

ریاض تنولی نے بتایا کہ ’اس حوالے سے کمپنی نے نوٹس بھی دیا تھا کہ واجب الادا رقم ادا کی جائے لیکن چونکہ حکومت کے پاس فنڈز دستیاب نہیں ہیں تو کمپنی نے پروگرام کو عارضی طور بند کیا ہے۔‘

خیبر پختونخوا کے سابق وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا، جن کے دور میں یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پروگرام کی بندش پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنے ویڈیو پیغام میں تیمور سلیم جھگڑا نے اس بارے میں کہا ہے کہ ’صحت کارڈ پروگرام قانونی طور پر محفوظ ہے اور اس پروگرام سے ہر ماہ ایک لاکھ 20 ہزار تک مریض مستفید ہو رہے ہیں۔ کل جب یہی ایک لاکھ سے زائد مریض ہسپتالوں میں جا کر علاج سے محروم ہوں گے تو گالیاں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس میں شامل جماعتوں کو دیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس پروگرام کے لیے پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس پروگرام کے لیے درکار فنڈ سالانہ بجٹ کا صرف دو فیصد ہے۔‘ 

تیمور جھگڑا نے کہا ہے کہ ’سستا آٹا سکیم کے لیے یہی حکومت اگر 20 ارب دے سکتی تھی تو صحت کارڈ پروگرام کے ماہانہ چار ارب روپے کیوں ادا نہیں کیے؟ یہ صرف عوام دشمنی ہے اور اس سے نقصان عوام کو ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت