صوبہ خیبر پختونخواکے ضلع خیبر میں پاکستان افغانستان طورخم بارڈر سے متصل پہاڑی کا بڑا حصہ 18 اپریل کو شدید بارشوں سے گرنے کے باعث متعدد مال بردار ٹرک ملبے تلے دب گئے۔
ریسکیو 1122 خیبر پختونخوا کے مطابق اس واقعے میں اب تک چھ افغان شہریوں کی لاشیں ملبے سے نکالی جا چکی ہیں جبکہ ساتویں لاش کی شناخت ہونا باقی ہے۔
پھنسے ہوئے دیگر ٹرکوں کو ملبے سے نکالنے کا کام تقریباً 60 گھنٹوں سے زائد سے جاری ہے۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ابھی تک پھنسے ہوئے 20 ٹرک ملبے سے نکال لیے گئے ہیں جبکہ مزید کو نکالنے کا کام جاری ہے۔‘
طور خم پر جاری اس ریسکیو آپریشن کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں، جن میں افغان طالبان کے پرچم والی ایک بڑی کرین کو بھی امدادی کارروائی میں شریک دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کرین کے ونڈ شیلڈ پر افغان طالبان کا پرچم لگا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کی جانے والی پوسٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکام ریسکیو آپریشن کے لیے کرین نہ مہیا کر سکے تو افغانستان میں طالبان حکومت نے مدد کے لیے کرین فراہم کی۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے ان دعوؤں کی حقیقت جاننے کے لیے ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر عبدالناصر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا: ’حادثے کی جگہ پر 45 اور 50 ٹن وزن اٹھانے والی کرین موجود ہیں لیکن ایمرجنسی میں ہمیں 80 ٹن وزن اٹھانے والی کرین کی ضرورت تھی۔‘
عبدالناصر کے مطابق: ’مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس یہ کرین ترنول میں موجود تھی اور وہاں سے طورخم لانے میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا تھا۔ اس وجہ سے افغانستان کی ایک نجی کمپنی سے بات کی گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کے پرچم والی کرین ایک نجی کمپنی کی ملکیت ہے اور ہم نے پیشگی رقم ادا کر کے اس کی خدمات حاصل کی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’افغانستان کی نجی کرین کمپنی کو ضلع خیبر انتظامیہ نے ایڈوانس میں یومیہ کے حساب سے پانچ لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔‘
ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال فیضی نے بتایا کہ ’آپریشن کے لیے ہم نے 50 ٹن وزنی دو کرین طور خم پہنچانے کا کہا تھا لیکن پشاور سے طورخم پہنچنے میں ان کو کئی گھنٹے لگ گئے تھے جس میں ایک طورخم پہنچی تھی جبکہ دوسری راستے میں خراب ہو گئی تھی۔‘
بلال کے مطابق: ’پاکستان افغان شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں جس کی وجہ سے سڑک کا ایک حصہ مکمل بند ہے۔ اس حالت میں پشاور یا کسی دوسرے شہر سے کرین طورخم پہنچانا مشکل تھا اس لیے افغانستان کی کمپنی سے بات کی گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان سے طورخم واقعے کی جگہ پر کرین پہنچانے میں 10 منٹ لگتے ہیں۔ یہ ایک آسان حل تھا اس لیے رقم دے کر اس کرین کو استعمال کے لیے حاصل کیا گیا۔‘
بلال نے بتایا کہ ’ضلع خیبر کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا ریسکیو آپریشن ہے جو دن رات جاری ہے اور اس کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔‘