محمد شہباز نے ایک ماہ قبل گاڑیوں کا شو روم بنانے کا فیصلہ کیا۔ جب انہوں نے مارکیٹ کا سروے کیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ کاروں کے اکثر ڈیلر پریشان ہیں کیوں کہ پچھلے ایک سال میں متوسط طبقے کے لیے کوئی نئی گاڑی مارکیٹ میں نہیں آئی اور جو گاڑیاں مارکیٹ میں میسر ہیں ان کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔
انہیں پتہ چلا کہ یہ منافع کا نہیں بلکہ نقصان کا کاروبار ہے کیوں کہ قیمتیں بڑھانے کے باوجود آٹو کمپنیاں نقصان میں جا رہی ہیں۔
وہ سوچنے لگے کہ دنیا بھر میں منافع کمانے والی کمپنیاں پاکستان میں کیوں نقصان میں ہیں۔
انہوں نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو انہیں معلوم ہوا کہ سوزوکی کی پاکستان سٹاک ایکسچینج میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر نقصان 12.9 ارب روپے ہے، جو پچھلے 16 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ درآمدات پر پابندی ہونے کی وجہ سے نقصان بڑھا لیکن کمپنی کی سٹاک ایکسچیبج میں جمع کروائی گئی رپورٹ کچھ اور بتاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سوزوکی کمپنی کا اصل نقصان شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔
پچھلے سال اسی سہ ماہی میں کمپنی نے تقریباً ایک ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے جبکہ موجودہ سال کی پہلی سہ ماہی میں کمپنی نے 12 ارب 85 کروڑ روپے اس مد میں ادا کیے جو تقریباً 1143 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
اسی طرح ہنڈا اٹلس کے منافعے میں چھ ماہ کے دوران 85 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ستمبر 2022 میں تقریباً 24 کروڑ روپے منافع ہوا جو پچھلے مالی سال کے اسی دورانیے میں ایک ارب 87 کروڑ روپے تھا۔
انڈس موٹر کمپنی لمیٹڈ کے مالی سال 2022-23 کی پہلی سہ ماہی کے منافعے میں 76 فیصد کمی ہوئی۔
ہنڈا اٹلس نے 30 اپریل کے بعد 15 مئی تک پلانٹس بند رکھنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ کرونا کے بعد ہنڈا کا سب سے زیادہ عرصے تک پلانٹ بند رکھنے کا یہ نیا ریکارڈ ہے۔
اسی طرح سوزوکی نے 23 اپریل تک پلانٹ بند رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ انڈس موٹر بھی مہینے میں 15 دن پلانٹ بند رکھنے پر مجبور ہے۔
انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او علی اصغر جمالی کے مطابق ’ہماری کمپنی کو 40 سے 50 فیصد گنجائش پر کام کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
’ہمارے مسائل کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی، درآمدات پر پابندی اور ایل سیز کا نہ کھلنا ہے۔
’اگر حکومت نے ہمارے مسائل پر توجہ نہ دی تو پلانٹس کو لمبے عرصے تک بند رکھنا پڑ سکتا ہے۔‘
معلومات حاصل کرنے کے بعد محمد شہباز کا کہنا ہے کہ ’وہ اس وقت تک شو روم نہیں بنائیں گے جب تک حکومت اور آٹو سیکٹر والے مسائل کا حل تلاش نہیں کر لیتے۔‘
راحیل پاکستان کی بڑی آٹو موبیل کمپنی کے لیے پارٹس بناتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آٹو سیکٹر کے بحران کی وجہ خود آٹو کمپنیاں ہیں۔
’ہنڈا موٹر سائیکل اور ملت ٹریکٹرز نے کئی سال پہلے 90 فیصد سے زیادہ پارٹس پاکستان میں بنانے شروع کر دیے تھے جس کی وجہ سے وہ آج بند نہیں ہوئے۔
’موٹر سائیکل، کاریں اور ٹریکٹر بنانے والے جن کمپنیوں کا 50 فیصد سے زیادہ انحصار درآمدات پر تھا وہ نقصان میں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں صرف کمپنیوں کا نقصان نہیں بلکہ ملک کا نقصان زیادہ ہے۔
’یہ بیوروکرسی اور جاپانی کار کمپنیوں کی ملی بھگت ہے جس کی وجہ سے لوکلائزیشن نہیں ہو پا رہی۔
’ہر کار کمپنی کو صرف اسی شرط ہر اسیمبلنگ کی اجازت ملنی چاہیے کہ وہ پانچ سال میں مکمل گاڑی پاکستان میں بنائیں۔ اسی صورت میں گاڑیاں سستی ہوں گی اور آٹو بحران کا خاتمہ ہو سکے گا۔
لاہور کار ڈیلرز فیڈریشن ایسوسی ایشن کے صدر شہزادہ سلیم خان نے بتایا کہ آٹو سیکٹر بحران کی وجہ سے لاہور کے تقریباً 30 فیصد کار شو روم بند ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر یہ بحران اسی طرح چلتا رہا تو جون تک 50 فیصد شو روم بند ہونے کا خدشہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ شرح سود بڑھنے سے ڈیلروں کا قسطوں والا کاروبار بند ہو گیا ہے۔ ’جو گاڑی 50 ہزار کی قسط پر بک جاتی تھی آج اس کی قسط ڈیڑھ لاکھ ہو چکی ہے۔‘
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایکسسریز مینوفکچررز کے چیئرمین منیر بانا کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں آٹو انڈسٹری مکمل بند ہو جائے گی۔
’ہماری ایسوسی ایشن کے ارکان تقریباً 30 لاکھ سے زیادہ نوکریاں مہیا کرتے ہیں۔ درآمدات کا متبادل فراہم کر کے تقریباً 1.5 ارب ڈالرز کی بچت کرتے ہیں اور ملکی ٹیکس آمدن میں تقریباً پانچ فیصد حصہ ہمارا ہے۔
’اگر انڈسٹری یونہی بند رہی تو یہ سب لوگ بے روزگار ہو جائیں گے جو ایک نئے بحران کو جنم دے گا۔
ہاکستان کی بڑی کار کمپنی کی فرنچائز کے مالک فیضان طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت کا مستقبل غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔
’مسئلہ صرف یہ نہیں کہ درآمدات پر پابندی کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی وقت خرید کم ہو گئی ہے۔
’جو گاڑیاں تیار کی جا رہی ہیں ان کا خریدار ہی نہیں۔ اگر ایل سی کھل بھی جاتی ہے توقیمتیں کم کیے بغیر گاڑیاں بیچنا مشکل ہی رہے گا۔‘