پولیس کا کہنا ہے کہ اپر کرم میں گذشتہ روز سات افراد کے قتل کے بعد جمعے کی صبح تمام مرکزی شاہراہیں کھول دی گئی ہیں لیکن ان پر پولیس اور پاکستان فوج کے اہلکار تعینات ہیں اور واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
گذشتہ روز خیبر پختونخوا کے دور افتادہ جنوبی ضلع اپر کرم میں پاکستان افغان بارڈر خرلاچی کے قریب واقع گاؤں تری منگل میں دو واقعات میں چار اساتذہ سمیت سات افراد قتل کر دیے گئے تھے۔
اپر کرم کے ضلعی پولیس سربراہ محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شاہراہیں بھی کھلی ہیں اور پاک افغان بارڈر خرلاچی بھی تجارت کے لیے کھول گیا ہے اور امن و امان کو برقرار کھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری مختلف جگہوں پر تعینات ہے۔‘
علاقہ مکینوں کے مطابق ضلع بھر میں انٹرنیٹ کو بند کیا گیا ہے اور مختلف مقامات پر آج واقعے کے خلاف احتجاج کی کال دی گئی ہے جبکہ بعض علاقوں میں پاڑہ چنار کی جانب جانے والی مرکزی شاہراہ کو بند کردیا گیا ہے۔
مقامی صحافی نبی جان اورکزئی کے مطابق کل کے مقابلے میں آج حالات معمول پر ہیں لیکن چند علاقوں میں سڑکیں اور انٹرنیٹ بند ہے۔
نبی جان نے ضلع کرم کے زمینی تنازعات کے حوالے سے بتایا کہ ضلع کرم کے حساس زمینی تنازعات میں یہ ایک تری مینگل اور پیواڑ علاقے کی شاملات زمینیں ہیں جن کے دعویدار دو مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔
نبی جان کے مطابق دوسرا زمینی تنازعہ صدہ کے علاقے مرغئ چینہ میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ بظاہر زمینی تنازعہ ہے لیکن کچھ شرپسند افراد اس کو وقتاً فوقتاً فرقہ واریت کا رنگ دیتے ہیں اور بات خون ریزی کی طرف چلی جاتی ہے۔‘
کرم واقعہ کیسے پیش آیا
پولیس کے مطابق چاروازگی روڈ پر جمعرات کو صبح تقریباً 11 بجے ایک چلتی گاڑی پر نا معلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں گاڑی میں موجود تری منگل ہائی سکول میں امتحانی ڈیوٹی پر مامور استاد زخمی جبکہ گاڑی میں موجود دوسرا شخص جان سے گیا۔
پہلے واقعے کے چند گھنٹوں بعد نامعلوم حملہ آوروں نے کرم پولیس کنٹرول کے اہلکار اظہار علی کے مطابق تری منگل ہائی سکول پر دھاوا بول دیا اور وہاں پر امتحانی ڈیوٹی پر مامور چار اساتذہ اور سکول میں کام کرنے والے دو مزدروں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
واقعے کے بعد ضلع کرم کی مرکزی شاہراہیں ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دی گئی تھیں اور کوہاٹ بورڈ کے زیر اہتمام جاری میٹرک کے امتحانات ضلع کرم میں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیے گئے تھے۔
اسی طرح واقعے کے بعد اساتذہ تنظیموں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور دونوں واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ واقعے کے بعد دونوں فرقوں کے مشران نے واقعات کی علیحدہ علیحدہ بیانات میں مذمت کی تھی۔
واقعے کی حقیقت کیا ہے؟
اب تک کی پولیس تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ گاڑی پر فائرنگ اور سکول پر حملہ دونوں واقعات کا آپس میں تعلق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپر کرم کے ضلعی پولیس سربراہ محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس علاقے میں یہ واقعات پیش آئے ہیں، یہاں پر برطانوی دور سے زمین کا ایک تنازعہ چل رہا ہے جو زمین کی تقسیم پر ہے اور اس قسم کی زمین کو یہاں پر ’شاملات‘ کہا جاتا ہے۔
یہ تنازعہ طوری اور منگل قبیلے کے درمیان ہے۔
ضلعی پولیس سربراہ محمد عمران نے بتایا کہ 1909 سے اس زمینی تنازعے پر 20 سے 25 جنگیں دونوں قبائل لڑ چکے ہیں اور اکتوبر 2021 میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ دونوں قبائل کے درمیان پیش آیا تھا جس میں دونوں قبیلوں کے مجموعی طور پر 16 افراد قتل ہوئے تھے۔
محمد عمران نے بتایا کہ ’اس لڑائی میں 11 افراد ایک قبیلے کے جبکہ پانچ دوسرے کے مارے گئے تھے۔ اب کل کے واقعے میں ایک قبیلے نے حساب برابر کرنے کے لیے دوسرے قبیلے کے لوگوں کو گاڑی پر فائرنگ کر کے قتل کیا تو معاملہ کشیدہ ہو گیا۔‘
گاڑی پر فائرنگ کے بعد محمد عمران کے مطابق مخالف قبیلے کے لوگوں نے سکول پر حملہ کر کے اپنے مخالف قبیلے کے افراد کو قتل کیا۔
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ ’سکول پر حملے سے پہلے حملہ آوروں کے خلاف پولیس اور علاقہ مکینوں کی جانب سے شدید مذاہمت بھی کی گئی جس میں پولیس جوان بھی زخمی ہوگئے لیکن مذاہمت کر کے وہ سکول کے اندر داخل ہوگئے جہاں پر اساتذہ کو قتل کیا۔‘