منگل کو اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آئندہ اجلاس میں طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نہ آنے کی صورت میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے نو مئی کے واقعات میں ملوث سرکاری ملازمین کی پینشن بند کرنے کا بھی کہا ہے۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان کے صدارت میں ہونے والے اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کے لازمی اخراجات کی تفصیلات سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔
اجلاس کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر (رجسٹرار) کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا، ’صاحب بہادر نہیں آئے؟‘
اس پر کمیٹی رکن شیخ روحیل اصغر نے سوال کیا کہ ’سپلیمنٹری گرانٹس کا جواب کون دے گا؟ اس کا جواب پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر دے گا، آپ حکومت سے کہہ دیجیے کہ ان کی گرانٹس کم کر دی جائیں کیونکہ دلچسپی نہیں ہے۔‘
نور عالم خان نے کہا کہ ’ہم وہ چیز کبھی نہیں کریں گے جو قانون سے باہر ہے، رجسٹرار کو اپنی گپ شپ کے لیے نہیں بلاتا۔‘
اجلاس کے دوران کمیٹی نے سپریم کورٹ سے متعلق آڈٹ پیراز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’مراعات کی تفصیلات نہیں دی گئیں، ان سب کو ملنے والی مراعات کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔‘
چیئرمین نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایسا ادارہ ہے جس میں روپیہ تو چھوڑ دیں، آنہ بھی غلط نہیں ہونا چاہیے۔‘
اجلاس میں رجسٹرار کی غیر حاضری پر سمن جاری کرنے کے حوالے سے چیئرمین پی اے سی کو مختلف اراکین کمیٹی نے ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جانے چاہییں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رکن کمیٹی شاہدہ اختر علی نے رجسٹرار کی جانب سے کمیٹی کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے خط کے ذریعے انکار کیا ہے، جبکہ دوسرے رکن ملک مختار احمد نے کہا کہ ’اگر وہ آئندہ نہیں آتے تو پارلیمان کے ذریعے ان کے وارنٹ جاری کروائیں۔‘
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ’اگر وہ نہیں آئے تو ہم وارنٹ گرفتاری اور سمن دونوں جاری کریں گے جس کی پارلیمان سے بھی اجازت لی جائے گی۔‘
چیئرمین نے گورنر سٹیٹ بنک کو ڈیم فنڈ اکاؤنٹس کی تفصیلات آڈیٹر جنرل کو فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
واضح رہے تین مئی کو ہونے والے اجلاس میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر رجسٹرار نہ آئے تو وارنٹ جاری کروں گا اور وارنٹ پر سٹے آڈر لیا گیا تو دوبارہ وارنٹ جاری کروں گا۔‘
کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کو سپریم کورٹ ججز، صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا کی تنخواہ کا موازنہ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سب سے زیادہ تنخواہ
کمیٹی کو جاری کردہ تنخواہوں کی تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ 15 لاکھ 27 ہزار 399 روپے ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 14 لاکھ 70 ہزار 711 روپے ہے۔
صدر کی مجموعی تنخواہ (گراس سیلری) آٹھ لاکھ 96 ہزار 550 روپے، وزیراعظم کی تنخواہ دو لاکھ ایک ہزار 574 روپے، اور وفاقی وزیر کی تین لاکھ 38 ہزار 125 روپے ہے۔ رکن قومی اسمبلی کی تنخوا ایک لاکھ 88 ہزار روپے ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ مجموعی تنخواہیں ہیں جبکہ ان کے ساتھ ملنے والے مراعات کی تفصیلات تاحال فراہم نہیں کی گئیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل دستاویز کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ملک بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے سرکاری ملازم ہیں۔
نو مئی کے واقعات اور سرکاری ملازمین کی پینشن روکنے کا حکم
نو مئی کو سرکاری املاک اور تنصیبات پر حملہ کرنے اور جلاؤ گھیراو کے واقعات میں ملوث افراد سے متعلق چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ان میں کچھ ایسے افراد ملوث تھے جو ریٹائرڈ ملازمین تھے۔
’جو بھی ریاست مخالف جاتا ہے اس کی پینشن اور مراعات روکنی چاہییں۔ جو لڑکے جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہوتے ہیں، ان کے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ میں لکھا جائے۔ کور کمانڈر کے گھر پر حملے کو کیوں نہیں روکا گیا؟ حملے میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ یہ غنڈے سب سے پہلے میرے گھر آئے تھے، تب گاؤں کے لوگوں نے ان کو بھگا دیا تھا۔‘
نور عالم خان نے کہا کہ ’نو مئی کے واقعات میں افغانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ افغانوں کے پنجاب، خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں میں شناختی کارڈ بھی بنتے ہیں۔‘