اب تک روسی معشیت کو تباہ ہو جانا چاہیے تھا۔ اتنا کہ عوام حکومت پر دباؤ ڈالتی کہ وہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات کر کے کسی تصفیے پر پہنچ جائے۔
سیدھی سی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے ملک کی معیشت ترقی کر رہی ہے اور جب سے روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، معاشی شعبے میں بہت کچھ ہوا ہے۔ پہلے روبل کی قیمت میں کمی آئی، پھر جلد ہی بحال ہو گئی۔
روس اپنی ہی جارحیت کی وجہ سے تیل اور گیس کی بلند ہو جانے والی قیمتوں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔ درآمدات تھوڑی دیر کے لیے کم ہوئیں، لیکن اب وہ اپنی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس آگئی ہیں۔
روس کو فوجی اعتبار سے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کافی تعداد میں فوجیوں کی جانیں گئیں لیکن جب تک کہ وہ براہ راست متاثر نہ ہوں، زیادہ تر روسی شہریوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اس صورت حال کی بدولت اور صدر پوتن کی جانب سے داخلی سطح پر اختلاف رائے کو دبانے کے نتیجے میں یوکرین سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ روس فوجی رسد جاری رکھ کر جنگ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
اس کے باوجود امریکی حکومت مارچ 2022 میں پیش گوئی کر رہی تھی کہ روسی معیشت جلد ہی ’15 فیصد تک سکڑ جائے گی‘ اور یہ کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران روسی شہری جس معیار زندگی کا لطف اٹھا رہے تھے، وہ باقی نہیں رہے گا۔ 400 سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اشیائے صرف کی تیاری اور تفریح کے شعبے سے ہے، کے روس سے چلے جانے کی صورت میں روسی شہریوں کو وہ سامان اور تفریح میسر نہیں ہو گا، جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔
روس پر پابندیاں لگانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ گھٹنے ٹیک دے۔ اس پالیسی نے کام نہیں کیا۔ کم از کم اس حد تک نہیں جو ان کا مقصد تھا۔ سال 2014 کے بعد سے جب روس نے کرائمیا پر حملہ کیا، سزا دینے کے اقدامات کے 10 ادوار ہو چکے ہیں۔ رواں ہفتے کے اختتام پر جی سیون سربراہ اجلاس کا 11واں نمبر ہے۔
ویب سائٹ کاسٹیلم ڈاٹ اے آئی، جو روس کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ جاپان میں جی سیون کے اجلاس سے قبل اور یوکرین پر حملے کے بعد روس پر تقریباً ساڑھے بارہ ہزار پابندیاں لگائی گئیں۔ 2014 سے لگائی گئی 2695 پابندیاں ان کے علاوہ ہیں۔ تقریباً دس ہزار افراد ان پابندیوں کی زد میں آئے۔
ان میں سفری پابندیوں سمیت روسی گیس، کوئلے اور تیل کی برآمدات، پرتعیش سامان کی فروخت، پیشہ ورانہ خدمات، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے فنڈز تک رسائی، حکومتی قرضوں اور روسی بینکوں کی طرف سے بین الاقوامی ادائیگیوں کے نظام ’سوئفٹ‘ کے استعمال پر پابندی شامل ہے۔ روس کے تقریباً 300 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔
جی سیون کے اجلاس میں برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے سخت مؤقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ روس یوکرین میں جنگ کی ’قیمت ادا کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روسی ہیروں، تانبے، ایلومینیم اور چاندی کی درآمدات کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ افراد سمیت مزید 300 روسی اداروں، بحری جہازوں اور طیاروں کو اب بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔
جی سیون رہنماؤں کے بقول: ’ہم مزید پابندیاں لگا رہے ہیں اور اقدامات کر رہے تاکہ روس اور ان کے لیے قیمت بڑھ جائے، جو اس کی جنگ کی حمایت کر رہے ہیں۔‘
سیاسی رہنما طویل عرصے سے بدمعاش ممالک کو روکنے کے لیے پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ تابوتوں میں گھر لوٹنے والے فوجیوں کو دیکھنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ شاذ و نادر ہی کام کرتے ہیں۔ ایک مثال جس کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے وہ اقوام متحدہ کی جانب سے نسل پرستانہ دور حکومت کے دوران جنوبی افریقہ پر لگائی گئی تجارتی پابندیاں تھیں۔ درحقیقت یہ معاشی تنہائی نہیں تھی جو برسوں تک برداشت کی گئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس کی وجہ مصائب اور خونریزی ختم کرنے کے لیے داخلی سطح پر سامنے آنے والے مطالبات تھے۔
جنوبی افریقہ کے معاملے میں پابندی کا اطلاق اقوام متحدہ نے کیا تھا، لیکن روس کے حوالے سے پابندیاں اقوام متحدہ یا باقی دنیا کی بجائے صرف امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کی طرف سے لاگو کی گئی ہیں۔
جنوبی امریکہ، افریقہ، مشرق وسطیٰ، انڈیا، پاکستان، چین اور باقی ایشیائی ممالک پر مشتمل ’گلوبل ساؤتھ‘ روس سے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ آدھی دنیا اب بھی روس کے ساتھ تجارت کے لیے کھلی ہے۔
پوتن چین اور انڈیا کو بڑے پیمانے پر تیل اور گیس بیچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے قریبی حلقے کے اراکین، دا اولیگارچز، انفرادی اقدامات سے متاثر ہو کر لندن، نیویارک اور پیرس سے دبئی جیسی جگہوں پر منتقل ہو گئے ہیں اور اپنے انتہائی شاہانہ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
شاید پوتن پر اولیگارچز کے اثر و رسوخ کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ اگر انہوں نے شکایت کی ہے تو ان کی آہیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔
مقامی کاروباری افراد، جن میں سے بہت سے سابق عملے کے ارکان ہیں، نے رخصت ہونے والی غیر ملکی فرموں کے روس میں کاروبار سنبھال لیے ہیں۔ وہ ممالک جو پابندیوں میں شامل نہیں ہیں انہوں نے اپنی مصنوعات کے لیے نئے دروازے کھول لیے ہیں اور وہ ان کی جگہ لے رہے ہیں، جو اب وہاں ممنوع ہو چکے۔
اسی وقت ’متوازی‘ درآمدات، مغرب سے روس کو تیسرے ملک کے ذریعے غیر قانونی فروخت، بھی عروج پر ہے۔ آرمینیا ایسا ہی ایک مرکز ہے، قازقستان اور سربیا بھی ایسے ہی دیگر سہولت کار ممالک ہیں۔
2021 میں قازقستان نے روس کو ایک بھی واشنگ مشین برآمد نہیں کی۔ اس سال یہ ایک لاکھ سے زیادہ مشینیں روس بھیجے گا۔ سربیا روس کو 10 ہزار ڈالر سے کم مالیت کے موبائل فون برآمد کرتا تھا، اب ان کی کھیپ دسیوں کروڑوں ڈالرز میں بھیجی جا رہی ہے۔
اگرچہ پابندیاں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر رہی ہیں لیکن ان کا کچھ اثر ہو رہا ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک مشکل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی کمپنیاں بھی اپنی جگہ کھو دیں گی۔ اسی طرح اولیگارچز کو وہ مکمل آزادی حاصل نہیں ہے، جو انہوں نے کبھی حاصل کی تھی۔
ہو سکتا ہے کہ یہ اس کا جادوئی علاج نہ ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ پابندیاں پوتن کو اپنی فوجی جارحیت کو بڑھانے سے روک رہی ہوں۔ وہ ایک تعطل میں قید ہو گئے ہیں اور اس طرح یہ سوچ آخر کار رک جائے گی۔ یہ مرحلہ ابھی دور ہے اور بلاشبہ اس مقام تک پہنچنے سے پہلے مزید پابندیاں لگائی جانی ہیں۔
نوٹ: کرس بلیک ہرسٹ ایوارڈ یافتہ مصنف، تجزیہ نگار اور انڈپینڈنٹ کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کی کتاب ’دا ورلڈز بگسٹ کیش مشین‘ (The World's Biggest Cash Machine) اسی سال شائع ہو گی۔
© The Independent