عمران خان نے تسلیم کیا ان کے پاس قتل کی سازش کا ثبوت نہیں:رانا ثنا اللہ

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ عمران نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ مجھے یہ یاد نہیں کہ مجھے قتل کرنے کے حوالے سے کس نے کہا تھا۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف سابق وزیر اعظم عمران خان تھانہ رمنا میں درج مقدمہ میں شامل تفتیش ہوئے ہیں، انہوں نے فوجی افسر، وزیر اعظم اور مجھ پر اپنے قتل کا الزام لگایا لیکن مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے بیانات کا ثبوت نہیں دے سکے۔ 

انہوں نے کہا، ’تفتیش کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی نے خود کو جھوٹا ثابت کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا مجھے یہ یاد نہیں کہ مجھے قتل کرنے کے حوالے سے کس نے کہا تھا۔ انہوں نے خود تسلیم کیا کہ گھٹیا الزام تراشی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عمران خان نے اپنے قتل کے حوالے سے نوجوان نسل کی ذہن سازی کی۔‘

تاہم پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس کے بعد ایک ٹویٹ میں لکھا کہ انہوں نے اپنے مبینہ قتل کی سازش کا الزام جن لوگوں پر لگایا تھا وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

گذشتہ روز عمران خان اسلام آباد میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے جہاں انہیں کچھ ویڈیوز دکھائی گئیں۔ ان ویڈیوز میں چیئرمین پی ٹی آئی نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل ندیم انجم اور ڈائریکٹر جنرل فیصل نصیر اور آرمی چیف کے خلاف تشدد اور قتل کی سازش کا الزام لگایا۔ عمران خان نے تمام ویڈیوز میں کی گئی تقاریر کی تصدیق کی۔ 

ڈی آئی جی آپریشنز کے دفتر میں ہونے والے اجلاس میں عمران خان کے خلاف تھانہ رمنا میں درج کی گئی ایف آئی آر کا متن بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ تفتیش کے دوران عمران خان سے سوالات بھی پوچھے گئے۔ ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے ثبوت سے متعلق سوال پر وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل فیصل نصیر نے براہ راست انہیں دھمکی دی؟ جس پر عمران خان نے نفی میں جواب دیا۔ 

’آپ نے الزامات کیوں لگائے؟‘ پر عمران خان نے جواب میں کہا، ’یہ مجھے یاد نہیں، کسی نے مجھے بتایا تھا۔‘

سوال: ’ڈی جی آئی ایس آئی کا نام کیوں لیا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان نے کہا کہ ’انہوں نے پریس کانفرنس کی تھی۔‘

جنرل فیصل نصیر سے ملنے سے متعلق انہوں نے جواب دیا کہ وہ کبھی ان سے نہیں ملے۔

’ڈرٹی ہیری کسے کہتے ہیں؟‘ پر انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ جنرل فیصل نصیر کو کہتے ہیں۔‘ 

جے آئی ٹی کی تمام کارروائی پیپر پر ریکارڈ کی گئی اور عمران خان کے دستخط بھی لیے گئے۔

دوسری جانب عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ انہوں نے ویڈیوز میں جو بھی کہا وہ اس سب کی تصدیق کرتے ہیں۔

’‏سوال تو یہ ہے کہ جب میں جنرل فیصل نصیر کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں کروا سکا جس کے بارے میں مجھے علم تھا کہ وہ رانا ثنااللہ اور شہباز شریف کے ساتھ مجھ پر قاتلانہ حملے کے منصوبے میں ہی نہیں بلکہ اس حملے کے بعد جے آئی ٹی، جو اس نتیجے پر پہنچی کہ حملے میں تین حملہ آور تھے، کی تحقیقات کو سبوتاژ (کور اپ) کرنے میں بھی ملوث تھا، تو میں شواہد کیسے مہیا کر سکتا ہوں؟‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اگر کبھی معاملے کی آزادانہ تحقیقات کی گئیں تو وہ ثابت کریں گے کہ ’یہ شخص ہمارے شہریوں کے خلاف بدترین جرائم میں ملوث رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست