نئے مالی سال 2023 سے 2024 کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے جس میں دیگر ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے ساتھ کچھ اشیا کو درآمدی ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔
استعمال شدہ اشیا پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد تھی جس کو ختم کر دیا گیا ہے اس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ گذشتہ پانچ سالوں سے لنڈا بھی مہنگا ہوتا گیا ہے لیکن کیا اب ٹیکس کے خاتمے کے باعث سستا ہو جائے گا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو کم آمدنی والے سفید پوش طبقے کے ذہن میں ہیں۔
اس کے علاوہ اتوار بازار سے مختلف کھیلوں کا درآمد شدہ سیکنڈ ہینڈ سامان خریدنے والے بھی اشیا کے سستی ہونے کی توقع کیے ہوئے ہیں۔
کم آمدنی والے طبقے کو ریلیف دینے کے لیے 2018 سے قبل استعمال شدہ درآمدی کپڑوں جوتوں پر تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد تھا، جسے 2018-19 کے بجٹ میں ختم کر دیا گیا تھا۔
تاہم 2019 میں نئی حکومت نے غریب طبقے کی ضرورت استعمال شدہ اشیا کو لگژری آئٹمز کی فہرست میں شامل کر دیا تھا اور اس پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی تھی اس کے ساتھ ہی ویلیو ایڈیشن، امپورٹ ڈیوٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔
جوتوں، کپڑوں، بیگز اور چمڑے کی مصنوعات کے لیے الگ الگ کیٹیگریز مقرر کی گئیں جس کے باعث محصولات کی بھرمار کی وجہ سے استعمال شدہ آئٹمز کی قیمت اس وقت 30 سے 35 فیصد تک بڑھیں اور اس کے بعد کے سالوں میں مزید ٹیکسز اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید کمزور ہونے کے باعث لنڈے کی اشیا بھی 100 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاجروں کا نقطہ نظر ہے کہ کراچی کی بندرگاہ سے اسلام آباد تک طویل سفر ہے اور وہ لاکھوں روپے کا کنٹینر خریدتے ہیں، پیٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے سفری اخراجات بھی زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ڈالر کی قدر روپے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ استعمال شدہ درآمدی اشیا مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اتوار بازار میں مختلف دکانداروں سے بات کی۔ لنڈا سیکشن میں استعمال شدہ قالین بیچنے والے دکاندار عمران کا کہنا تھا: ’چار سال پہلے جو چھوٹا قالین پانچ سو کا تھا اب 1500 کا ہے اور یہ سستا اب ہو بھی نہیں سکتا، جو مہنگائی کے حالات ہیں تو ہم نے بھی گھر چلانا ہے۔‘
ڈیکوریشن سامان فروخت کرنے والے ایک دکاندار صاحب جان سے استعمال شدہ ڈیکوریشن پیس مہنگے بیچنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: ’حکومت نے 10 فیصد ڈیوٹی ختم کرنے کا کہا تو ہے لیکن جو مال ہم ڈیوٹی ادا کر کے خرید چکے ہیں وہ کیسے سستا بیچ دیں؟ انہوں نے کہا جب تک پرانا مال ختم نہیں ہو جاتا وہ اسی قیمت پر بکے گا جبکہ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد خریدے گئے مال پر دیکھیں گے کہ کیا قیمت رکھیں۔‘
خریدار اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
لنڈے کا سامان خریدنے ہر معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔
کچھ کو کھیلوں کا سامان خریدتے دیکھا تو کچھ کوڈیکوریشن اور درآمد شدہ قالین میں دلچسپی لیتے دیکھا۔ ان سٹالز پر زیادہ تر خوشحال طبقے کے لوگ تھے۔
جبکہ جوتوں اور کپڑوں کے سیکشن میں بھی رش تھا۔ لنڈے سے چند لوگ صاف ستھرا سامان خرید کر بعد میں آن لائن بیچتے ہیں۔ کیمرے پر کسی نے بھی بات کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی لیکن ان میں سے چند خریداروں کا کہنا تھا کہ استعمال شدہ اشیا مہنگی تو ہوئی ہیں لیکن بحث کے بعد تھوڑی مناسب قیمت مل جاتی ہے۔
ایک خریدار نے کہا: ’تاہم یہ بھی سچ ہے کہ لنڈا بھی اب چند سال پہلے والا نہیں رہا۔ خوشحال طبقے نے جب سے ادھر کا رخ کیا ہے دکاندار اب اشیا کی قیمتیں زیادہ بتاتے ہیں۔ بہرحال مقامی مارکیٹ کی نسبت اب بھی کوالٹی کی اشیا ڈھونڈنے کے بعد یہاں مل جاتی ہیں۔‘