تین عرب ملکوں کی مضبوط فوج کو صرف چھ دنوں کی جنگ (جون 1967) میں شکست فاش دے کر اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع موشے دیان نے مقبوضہ بیت المقدس میں ’دیوار گریہ‘ کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا: ’ہم اپنے مقدس مقامات کو لوٹ آئے ہیں ۔۔۔۔ اب ہم انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے۔‘
56 برس قبل لڑی جانے والی اس مشہور زمانہ جنگ کے بعد اسرائیل نے کئی عرب ملکوں بشمول فلسطینیوں سے امن معاہدے کیے، مذاکرات کی میز سجائی، لیکن ہتھیائی گئی فلسطینی اراضی سے متعلق موشے دیان کا اعلان آج بھی اسرائیل کی ڈی فیکٹو پالیسی سمجھا جاتا ہے۔
تل ابیب نے مقبوضہ اراضی سے متعلق صرف ایک مرتبہ اپنے موقف میں نرمی دکھائی جب کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد 79-1978 میں جزیرہ نما سینا کا علاقہ مصر کو واپس لوٹایا۔
دوسرے معاہدوں میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق خود اختیاری اور دو ریاستی حل کو لفاظی کی حد تک تو تسلیم کیا، لیکن ایک انچ مقبوضہ قطع اراضی چھوڑنے پر تیار نہ ہوا۔
متحدہ عرب امارات نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ ابراہم نامی امن معاہدہ کیا، جس میں ’فلسطینی اراضی سے دست کش ہوئے بغیر پرامن بقائے باہمی کی بات کی گئی تھی۔‘
مشرق وسطیٰ کے اہم عرب ملک یو اے ای نے اسرائیل کو سیاسی اور سفارتی طور پر تسلیم کرنے کے بدلے اسرائیل سے یہ یقین دہانی لی تھی کہ ’تل ابیب، غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور انہیں اسرائیل میں ضم کرنے سے باز رہے گا۔‘
معاہدہ ابراہم میں بھی اسرائیل نے کوئی زمینی رعایت دینے کی ہامی نہیں بھری۔ جون کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کے 56 برس بعد بھی اسرائیل آج غرب اردن پر قابض ہے، غزہ کا کڑا محاصرہ مسلسل امتحان بنا ہوا ہے، جبکہ ٹرمپ بہادر گولان کی چوٹیوں پر بھی اسرائیلی سیادت تسلیم کرنے کی امریکی مہر ثبت کر گئے۔
جون کے مہینے میں عرب ۔ اسرائیل جنگ کی غمناکی دو چند ہو جاتی ہے، لیکن پیر (19 جون) کو پھٹنے والی پو اور شمالی جنین کے پرامن ماحول کو اسرائیلی فوج کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے تاراج کیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ نصف صدی سے زائد مدت تک غرب اردن کو اپنی ناک تلے رکھنے کے باوجود اسرائیلی فضائیہ کو اپنی زمینی سپشل ٹاسک فورس کے عملے کو بچانے کے لیے ناکارہ اپاچی گن شپ ہیلی کاپٹر بھیجنے پڑیں گے۔
فلسطین پر مکمل قبضے کے اسرائیلی منصوبے کی تقریباً تمام پرتیں غرب اردن کے شہر جنین اور اس میں موجود فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کے بعد سامنے آ چکی ہیں۔
اسرائیل نے 22 برس قبل بپا ہونے والی دوسری انتفاضہ کے بعد پہلی مرتبہ مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت کاروں کو کچلنے کے لیے امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا۔
اس اقدام کے سٹرٹیجک مضمرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، بالخصوص ایسا علاقہ جو معاہدہ اوسلو کے بعد داخلی سکیورٹی اور خارجی دفاع کے حوالے سے اسرائیل کی براہ راست عمل داری میں چلا آ رہا ہے۔
جہاں فلسطینی اتھارٹی نام کی ربڑ سٹیمپ مقامی قیادت غرب اردن سے باہر اپنی نقل و حرکت کے لیے اسرائیل سے سفری اجازت کی طلب گار رہتی ہو، وہاں مزاحمت کاروں کے خلاف اسرائیل جیسی جنگی مشین کو اپنے دفاع میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کو مدد کے لیے بلوانا دور حاضر کا ایک ناقابل یقین معجزہ ہے۔
تل ابیب سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت عبرانی اخبار ’يديعوت أحرونوت‘ کے مطابق اسرائیلی فضائیہ کے زیر استعمال گن شپ اپاچی ہیلی کاپٹروں نے جنین میں مزاحمت کار بندوق برداروں پر اندھا دھند راکٹ برسائے تاکہ فلسطینی نوجوانوں کو اس جگہ سے دور ہٹایا جا سکے جہاں بارودی سرنگ لگا کر اسرائیلی فوجی گاڑی کے قریب زوردار دھماکہ کیا گیا تھا، جس میں چھ اسرائیلی فوجی زخم چاٹنے پر مجبور ہوئے۔
اخبار کے مطابق چند دن قبل ہی اپاچی ہیلی کاپٹروں میں تکنیکی خرابی کے انکشاف کے بعد ان کی پروازیں منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اپاچی طرز کے ہیلی کاپٹروں کے پورے سکواڈرن کی جانچ مکمل ہونے تک ان کی پروازیں منجمد کر دی گئی تھیں۔
تاہم، مصر کے ساتھ سرحد پر ہونے والے آپریشن کے دوران جانچ مکمل کرنے سے پہلے فوج کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔
صہیونی فوج نے چند روز قبل تمام طیاروں کی جانچ پڑتال کے بعد اس طرز کے ہیلی کاپٹروں کی پروازیں مکمل طور پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اوسلو معاہدے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے کی تین حصوں میں انتہائی پیچیدہ تقسیم اور آئے روز وہاں تعمیر ہونے والی یہودی بستیوں کے باعث اس علاقے میں مزاحمت کاروں کی کارروائیاں تقریباً ناممکن خیال کی جاتی تھیں۔
نیز فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون نے مؤثر مزاحمت کے امکان کو معدوم بنا رکھا تھا، کیونکہ کسی بھی مزاحمتی کارروائی کی بھنک پڑتے ہی فلسطینی سکیورٹی اہلکار اس کی لاجسٹک تفصیل اسرائیل کے دربار میں پیش کرنے پہنچ جایا کرتے ہیں۔
ان تمام جکڑ بندیوں کے باوجود دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے میں مزاحمت کا شرارہ آہستہ آہستہ سلگتا رہا اور رواں سال کے آغاز میں اسرائیل کی ظالمانہ کارروائی کے بعد دوسری مرتبہ چھ ’شہیدوں‘ کا نذرانہ پیش کر کے جنین نے ایک مرتبہ پھر خود کو مزاحمت کا گڑھ ثابت کیا ہے۔
اسرائیل کے سلامتی سے متعلق اداروں کو مسلسل خبریں مل رہی تھیں کہ غزہ کی پٹی کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا کر فلسطینی مزاحمت کاروں نے غرب اردن میں بھی اپنی غیر اعلانیہ عسکری صف بندی شروع کر رکھی ہے۔
گذشتہ تین مہینوں کے دوران غرب اردن میں مزاحمت کاروں کی یکے بعد دیگرے حیران کر دینے والی دلیرانہ کارروائیاں فلسطینی مزاحمت کاروں کی تیاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
بڑھتے ہوئے مزاحتمی طوفان کے سامنے بند باندھنا اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اسرائیلی فیصلہ سازوں نے مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ غرب اردن میں انتہائی چالاکی سے تعمیر کی جانے والی یہودی آباد کاروں کی جدید رہائش گاہیں اسرائیل کا ایک مؤثر اور قابل اعتبار سکیورٹی نیٹ ورک ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی موجودہ قوم پرست مذہبی حکومت نے (18 جون) بروز اتوار مقبوضہ مغربی کنارے میں ہزاروں مکانات کی تعمیر کے اجازت نامے منظور کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔
دوسری جانب امریکہ صہیونی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ غربِ اردن میں ان بستیوں کی توسیع کو روکا جائے۔ وہ اسے فلسطینیوں کے ساتھ امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔
مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں 4,560 مکانوں کی منظوری کے منصوبوں کو اسرائیل کی سپریم پلاننگ کونسل کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے، حالانکہ صرف 1،332 حتمی منظوری کے لیے تیار ہیں، باقی ابھی ابتدائی کلیئرنس کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
رواں سال جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی اتحادی حکومت نے 7,000 سے زیادہ نئے مکانوں کی تعمیر کی منظوری دی، جن میں سے زیادہ تر مغربی کنارے میں ہیں۔
نتن یاہو نے ایک قانون میں بھی ترمیم کی تاکہ آباد کاروں کے لیے چار بستیوں میں واپس جانے کا راستہ ہموار کیا جا سکے جو پہلے خالی کر دی گئی تھیں۔
اتوار کے اسرائیلی فیصلے کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے مشترکہ اقتصادی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے اپنی خود مختاری ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
مغربی کنارے کی انتظامیہ میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے سخت گیر وزیر خزانہ بیزایل سموٹریچ ایسے موقع پر کہاں خاموش رہنے والے تھے، بولے: ’ہم علاقے پر اسرائیل کی گرفت کو مستحکم کرنے اور آباد کاری کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے‘۔
اپنے بیان سے جلتی پر تیل چھڑنے کا کام کرتے ہوئے صہیونی وزیر خزانہ سموٹریچ نے مزید کہا: ’ہم بستیوں کی تعمیر جاری رکھیں گے اور ان بستیوں کی زمین پر اسرائیلی کنٹرول کو مضبوط کریں گے۔‘ سموٹریچ خزانہ کے ساتھ سکیورٹی کے فرائض بھی سنبھالتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کے نئے ’سیاسی اور سفارتی کزنز‘ تل ابیب سے سوال کریں کہ جس شرط پر متحدہ عرب امارات نے سفارتی اور سیاسی تعلقات کی بحالی کی ہامی بھری تھی، وہ تو یہودی بستیوں کے نئے اعلانات کے بعد جوں کی توں برقرار ہے۔
نتن یاہو حکومت کے اب تک فیصلے، پالیسیاں، بین گویر کا مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی کرنے پہنچنا، اسرائیلی کابینہ کا فلسطینیوں پر پابندیاں لگانا، دو ریاستی حل سے عملی انکار اور اب جنین میں کشت و خون کا تقاضا یہ ہے کہ مجبور محض بن کر نہیں، زندہ و جاوید قیادت اور باہمت قوم کی طرح بہترین سفارت اور اعلیٰ فراست کا پوری جرات سے اظہار کیا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی رائے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔