انسانی سمگلنگ ’ناقابل معافی جرم‘ قرار دی جانے کا مطالبہ

ایس ایس ڈی او کے زیر اہتمام کانفرنس میں بتایا گیا کہ کانفرنس کی پورٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک انسانی سمگلنگ کے 2700 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 

ایس ایس ڈی او کے سی ای او سید کوثر عباس اسلام آباد میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات تجویز کرنے کی غرض سے منعقد ہونے والی کانفرنس کی سفارشات میڈیا کو بتا رہے ہیں(ایس ایس ڈی او/ فیس بک)

پاکستان میں امن اور پائیدار ترقی پر کام کرنے والی تنظیم سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے انسانی سمگلنگ سے متعلق قوانین کو ناقابل معافی جرم قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ سفارشات یونان میں گذشتہ دنوں ڈوبنے والی کشتی کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں متعدد پاکستانی شہریوں کے بھی ڈوب کر مرنے اور لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اسلام آباد میں اسی حوالے سے بدھ کو ایس ایس ڈی او کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جن میں اراکین پارلیمان، قانونی ماہرین، وکلا، غیر سیاسی تنظیموں کے اہلکاروں، اور سیاسی و سماجی کارکنوں نے شرکت کی۔

ایس ایس ڈی او کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید کوثر عباس نے بدھ کو میڈیا کو بتایا کہ کانفرنس کے نتیجے میں سامنے آنے والی دوسری سفارشات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مناسب وسائل دستیاب کیا جانا، تربیت یافتہ افراد کو انسانی سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ داریاں دینا، انسانی سمگلنگ سے متعلق عوام الناس میں آگاہی کے پیدا کرنے کے حوالے سے اقدامات کرنا اور انسانی سمگلنگ سے متاثرہ ہونے والے افراد کو ملزم تصور نہ کرنا شامل ہیں۔

نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق کانفرنس میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی قائم کردہ کمیٹیوں کو زیادہ فعال اور متحرک بنانے اور ان غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کی غرض سے ضلعی سطح پر مخصوص افسران مختص کیے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ 

کانفرنس کی سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ یونان میں پیش آنے والے کشتی کے حادثے جیسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہاٹ لائنز قائم کی جائیں۔

اس موقع پر شرکا نے کہا کہ حالیہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب کشتی میں سوار متاثرہ افراد نے ہاٹ لائن چلانے والے ایک مقامی ادارے سے رابطہ کیا۔

’ہاٹ لائن کے قیام سے انسانی سمگلنگ سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے میں بھی مدد ملے گی اور متعلقہ محکموں کے درمیان تعاون اور رابطہ بھی ممکن ہو سکے گا۔‘ 

کانفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ عوام کو ایک سے دوسرے ملک نقل مکانی کرنے کے قانونی طریقے بھی بتائے جانے چاہیے جس سے ایسے واقعات میں کمی واقع ہو گی۔ 

شرکا نے مطالبہ کیا کہ انسانی سمگلنگ کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی غرض سے انسانی سمگلنگ سے متعلق مخصوص عدالتیں قائم کی جائیں جس سے متاثرین کو فوری انصاف کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ 

کانفرنس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک انسانی سمگلنگ کے 2700 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں انسانی سمگلنگ سے متعلق دو قوانین بنائے گئے تھے جن میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔

’عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا‘

دوسری جانب نامہ نگار امر گرڑو کے مطابق انسانی حقوق کے تحفظ کی غرض سے قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس اینڈ لیگل ایڈ نے یونان کشتی حادثے کی منصفانه تحقیقات اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دلوانے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست داخل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ 

ہیومن رائٹس اینڈ لیگل ایڈ کے رہنما ضيا احمد اعوان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت اس مسئلے کا نوٹس لینے کے لیے خط بھی لکھا جائے گا۔  

بدھ کو کراچی میں پریس کانفرنس میں ضيا احمد اعوان نے کہا کہ یونان میں پیش آنے والا واقعہ کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ اور ٹریفیکنگ کے ایسے کئی واقعات ہر سال ہوتے ہیں، جن سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہزاروں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ لوگ یورپ میں سکون و آرام اور مواقع تلاش کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘

ضیا احمد اعوانم جو سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ہیں، کا کہنا تھا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا میزبان بنا ہوا ہے اور جرائم پیشه عناصر جو ٹریفکنگ کے ذمہ دار ہیں ان پناہ گزین کیمپوں میں درانداز ہو چکے ہیں۔  

’پاکستان کی غیر محفوظ اور مشکل سرحدوں کی وجہ سے ہمارا ملک اکیلا اس مسئلے سے نمٹ نہیں سکتا، اس لیے بین الاقوامی برادری کو اس مسئلے کو نمٹنے کی خاطر پاکستان کو مدد فراہم کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا ویزا نظام معاشی مائگرنٹس کو اپنے بنیادی انسانی حقوق بشمول آزادی نقل و حرکت اور بہتر مالی حالات کے لئے کوشش کرنے کا حق کے حصول سے روکتا ہے۔

’یہ امتیازی پالیسیاں ان حادثات میں برابر کی حصہ دار ہیں اور ایسے ممالک کو اپنی سرحدیں بند کرنے کے بجائے ایمیگریشن سے متعلق مناسب قانون سازی کر کے اپنی سرحدیں کھولنا چاہیے۔‘

ضیا احمد اعوان نے پاکستانی حکومت اس حادثے کی تحقیقات کے لیے تعصب اور مفادات سے پاک ایک اعلیٰ درجے کا عدالتی کمیشن قائم کرنمے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے پاکستانی حکومت سے یونانی حکومت کے حالیہ کشتی واقعے میں ملوث ہونے کے ثبوت ملنے کی صورت میں بین الاقوامی فوجداری عدالت یا بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان