فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے سپریم کورٹ میں آغاز پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’من پسند افراد کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے۔‘
جمعے کو سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہؤئے کہا کہ ان کی درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے کیوں کہ انہوں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا۔
’میرا یہ موقف نہیں کہ عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ ٹرائل ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔‘
وکیل نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقیں غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہیں جن پر وہ دلائل دیں گے۔
’میرا موقف ہے کہ من پسند افراد کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص شہریوں کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں جس میں سے ایک فیصلہ سال 1998 میں آیا جہاں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے سوالات کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے حوالے سے فوجی عدالتوں میں ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، عام شہریوں نے ان ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟
کس طریقہ کار کے تحت یہ گرفتاریاں کی گئیں؟
کن کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا؟
فوج کی جانب سے یہ الزام کیسے لگایا گیا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے؟
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ کمانڈنگ افسر کیسے عام شہریوں کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا یہ کیسے طے ہوتا ہے کہ کسی کے خلاف آرمی ایکٹ یا آفیشل ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے؟
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا ضابطہ فوجداری کی دفعات آرمی ایکٹ میں کہاں ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے جس کے تحت یہ طے ہوتا ہے کہ سویلین کو ان کے حوالے کیا جائے؟
اس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی ان کی دلیل ہے کہ فوج عام شہریوں کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
دوسری جانب پنجاب حکومت نے عدالت میں نو مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا جمع کروا دیا ہے۔
رپورٹ میں فوج کے زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا شامل نہیں اور نہ ہی صحافیوں، نابالغ بچوں اور وکلا کا ڈیٹا شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں ملوث 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا جبکہ 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایم پی او کے تحت دو ہزار 258 افراد کی گرفتاری کے آرڈر جاری کیے گئے جبکہ توڑ پھوڑ کے واقعات میں تین ہزار 50 افراد ملوث پائے گئے ہیں اور اس وقت ایم پی او کے تحت 21 افراد جیلوں میں ہیں۔
انسداد دہشت گردی قانون کے تحت نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف 51 مقدمات درج کیے گئے اور 1888 افراد کو گرفتار، 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 33 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی اور 500 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کیا گیا جبکہ 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔
ان واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف دیگر قوانین کے تحت 247 مقدمات درج کیے گئے جن کے تحت 4119 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 86 ملزمان جسمانی ریمانڈ اور 2464 کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا۔
دیگر مقدمات میں 368 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی جبکہ اب تک 1201 افراد کو بری اور 3012 افراد کو مختلف مقدمات میں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔
’سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں ٹھوس بنیاد نہیں‘
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا دستاویزات دکھا دیں جس کی بنیاد پر عام شہریوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ بھی قانون میں ہے کہ اگر فوج سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟
چیف جسٹس نے کہا کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے۔ فوج انسداد دہشت گردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے لیکن ’فوج کی جانب سے دی گئی درخواست میں ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی۔ اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی؟‘
وکیل فیصل صدیقی نے کہا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق سول عمارتوں پر بھی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اس طرح یہ معاملہ پیچیدہ ہو جائے گا، طریقہ کار کا بتائیں۔
وکیل نے جواب دیا کہ ’آرمی ایکٹ 1954 میں قوانین موجود ہیں جن کی بنیاد پر سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، اس کا براہ راست اطلاق آرمی کے افسران اور ملازمین پر ہوتا ہے۔
’سویلین ملٹری کورٹ نہیں جا سکتا، ان کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوتا ہے۔ انتہائی غیر معمولی حالات میں فوجی عدالت فعال ہو سکتی ہے۔‘
وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل نے کہا ان کی درخواست کسی سیاسی جماعت یا تنصیبات پر حملے کی حمایت نہیں کرتی بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ جب کثیر تعداد میں لوگوں کے حقوق متاثر ہوں تو کوئی بھی بنیادی حقوق کے تحفظ کی درخواست کر سکتا ہے۔
’سوال یہ ہے کیا سویلین جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ میرا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ ہمارا اعتراض یہ نہیں کہ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہو بلکہ ہمارا نقطہ فورم کا ہے کہ کارروائی کا فورم ملٹری کورٹس نہیں۔
’سوال یہ ہے سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں کیا گنجائش ہے؟ آرمی ایکٹ کا کل مقصد یہی ہے کہ افواج میں ڈسپلن رکھا جائے۔ جن افراد کو مسلحہ افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پر ہی اس ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔‘
’آرمی ایکٹ کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہے‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کے مطابق آرمی سے متعلق کسی قانون میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا: ’آئین میں جو درج ہے اس کے مطابق چلنے کا قائل ہوں آئین کے اندر راستے تلاش نہیں کرتا۔
’جب آئین اجازت ہی نہیں دیتا کہ آرمی ایکٹ کا جائزہ لے سکیں تو کیسے فیصلہ کریں کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط؟ سپریم کورٹ کو یہ حق کہاں سے حاصل ہوا کہ آرمی ایکٹ کا جائزہ لے سکے؟ آرمی ایکٹ میں جو کچھ بھی ہے ہمیں تو اس کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے جس پر وکیل احمد حسین نے کہا کہ اس صورت میں سویلین کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے جب وہ بیرونی سازش کا حصہ ہوں اور ملک کے خلاف گٹھ جوڑ ثابت ہو جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔
سندھ میں 102 افراد فوج کی حراست میں ہیں
اٹارنی جنرل نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کوئی بھی پولیس کی حراست میں نہیں ہے۔ 172 افراد جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں جبکہ 70 افراد کو ضمانت دی گئی ہے۔ 117 افراد تھری ایم پی او کے تحت حراست میں ہیں جبکہ 102 افراد فوج کی حراست میں ہیں۔ کوئی بھی خاتون، صحافی یا وکیل فوج کی حراست میں نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا فوج کی تحویل میں ہے جس کی عمر کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ اگر بچے کی عمر 18 سال سے کم ہوئی تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے اس حوالے سے وکلا اور صحافیوں کے لیے بنائی گئی پالیسی سے متعلق استفسار کیا جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت وکلا اور صحافیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔
چیف جسٹس نے کہا ازخود نوٹس لیں گے نہ جوڈیشل آرڈر کریں گے لیکن ان تمام چیزوں کو نوٹ کر رہے ہیں۔ آئندہ سماعت پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز سے جواب مانگیں گے اور سلمان اکرم راجہ کے دلائل سے آئندہ سماعت کا آغاز کیا جائے گا۔ ’کوشش ہوگی کہ اس کیس کا نتیجہ 27 جون تک نکل آئے۔‘ بعد ازاں کیس کی سماعت 26 جون تک ملتوی کر دی گئی۔