اسلام آباد میں لال مسجد واقعہ اور مودی کی امریکہ میں پذیرائی

ایک طرف امریکہ میں نریندر مودی کے استقبال کی تیاریاں جاری تھیں تو دوسری جانب پاکستان کے دارالحکومت میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں کے خلاف محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں پر فائرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں لال مسجد کے منتظمین کے خلاف کارروائی پر احتجاج کے دوران پانچ جولائی 2007 کو نوجوان حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں صدر کے دفتر وائٹ ہاؤس میں گذشتہ دنوں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے استقبال کی تیاریاں جاری تھیں۔

ان کا پرتپاک استقبال کیا جانا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سربراہ امریکی صدر جو بائیڈن سے ملنے آ رہا تھا۔ وقت وقت کی بات ہے۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب صدر مشرف کا بھی اسی طرح کا استقبال کیا جاتا تھا۔

ایک طرف یہ تیاریاں جاری تھیں تو دوسری جانب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ریڈ زون سے قریب واقع لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں کے خلاف محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں پر فائرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

یہ سب کافی نہیں تھا کیوں کہ اس کے بعد مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ امِ حسان کھلے عام ویڈیو پیغام میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مدد کے لیے پکارتی ہیں اور سکیورٹی فورسز کو دھمکی آمیز لہجے میں کہتی ہیں کہ ’فدائین کو بھول گئے‘ ہو۔

وہ دو درجن کے قریب برقعہ پوش مدرسے کی طالبات لے کر سڑک پر نکل آتی ہیں، راستے بلاک کرتی ہیں اور نجی پراپرٹی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے جاری ایک بیان میں اس واقعے کی مذمت کی گئی اور مولانا عبدالعزیز کے خاندان کو ’تنہا نہ چھوڑنے‘ کی یقین دہانی کروائی گئی۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعلامیے میں 2007 کے لال مسجد آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس مرتبہ بھی ’کارروائی کے نتیجے میں خاموش نہیں رہا جائے گا اور شدید انتقام لیا جائے گا۔‘

‎چلیں اب واپس واشنگٹن چلتے ہیں جہاں پر امریکی صدر اور انڈین وزیراعظم کی ملاقات ہو چکی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں مودی کے استقبال کے دوران 21 توپوں کی سلامی دی گئی اور عشائیے میں صرف سبزیوں پر مشتمل کھانے رکھے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملاقات کے بعد اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے، جس میں سرحد پار دہشت گردی اور ’پراکسی گروپوں‘ کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین ’دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔‘

اس اعلامیے میں کالعدم تنظیموں القاعدہ، دولت اسلامیہ، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

’سرحد پار دہشت گردی‘ کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ اور انڈیا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ’فوری اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا جائے کہ اس کی سرزمین دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ کی جائے۔‘

اعلامیے میں ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس اعلامیے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے خلاف عالمی سطح پر عملداری کو مزید مؤثر بنایا جائے۔‘

چلیں اب واپس اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں جہاں پر مولانا عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ امِ حسان کے خلاف تو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے لیکن امِ حسان کے اس بیان پر کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

کیا ایک بار پھر ان سے مفاہمت کی پالیسی کو اپنایا جائے گا کیونکہ یا تو یہ ہمارے ’ایسٹ‘ (اثاثے) ہیں یا پھر اس وقت بھڑوں کے چھتے کو نہیں چھیڑنا کیونکہ ریاست اس وقت سیاسی اور معاشی حالات کو قابو کرنے میں مصروف ہے۔

ہم نے بہت برس سے ’اجازت دینے، ڈھیل دینے‘ کی پالیسی پر کام کیا ہے اور اس کے نتائج بھی دیکھ لیے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے عناصر سے سختی سے قانونی طور پر نمٹا جائے تاکہ دوسرے ایسے عناصر کو سر اٹھانے کا موقع نہیں مل سکے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ