خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ اختر حیات گنڈاپور نے گذشتہ روز پشاور میں پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ گذشتہ چند دنوں کے دوران سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں میں داعش کی خراسان شاخ ملوث ہے۔
ماہِ رواں کے دوران پشاور کے تھانہ یکہ توت کی حدود میں من موہن سنگھ کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا اور اس سے قبل ترلوک سنگھ نامی دکاندار کو فائرنگ سے زخمی کیا گیا تھا جبکہ 2021 اور 2018 میں بالترتیب حکیم سردار ستنام سنگھ کو ان کے کلینک میں اور 2018 میں بھی ایک سکھ دکاندار چرنجیت سنگھ کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔
سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں میں اضافے کی وجہ سے پشاور میں سکھوں کے محلے محلہ جوگن شاہ کے رہائشیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور اسی سلسلے میں دو دن پہلے اس مخصوص علاقے کے ایک وفد نے نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان سے ملاقات کی۔
پشاور میں سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن گورپال سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ دہائیوں سے اس شہر میں تقریباً 15 ہزار سکھ آباد ہیں۔
سکھوں پر حملوں کی ممکنہ وجوہات
داعش خراسان، جو پاکستان سمیت انڈیا اور افغانستان کی شاخ سمجھی جاتی ہے، کی جانب سے افغانستان اور پشاور میں سکھوں پر حملوں میں اضافے کو مبصرین تنظیم کی جانب سے خود کو ایک عالمی تنظیم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں۔
تقریباً دو دہائیوں سے پشاور سمیت افغانستان سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ داعش کو بنیادی طور پر شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کے لیے جانا جاتا ہے اور یہی اس تنظیم کی پہچان ہے۔
رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ ’روسی اور پاکستانی سفارت خانوں سمیت ازبکستان اور تاجکستان میں بھی افغانستان کی سر زمین سے داعش کی جانب سے حملے کیے گئے ہیں اور افغان طالبان کے قریب سمجھے جانے والے افراد کو بھی اب ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ بین الاقوامی توجہ حاصل کی جا سکے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’خود کو عالمی تنظیم اور اس حوالے سے بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے داعش کی انڈیا، کشمیر اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں شاخیں قائم ہیں، اگرچہ اس تنظیم کی جانب سے ان علاقوں میں کاروائیاں زیادہ نہیں ہیں لیکن وہاں تنظیمیں ضرور موجود ہیں۔‘
رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا تھا: ’غیر مسلموں پر حملوں کے پیچھے مجھے صرف یہی وجہ نظر آتی ہے کہ وہ بین الاقوامی توجہ حاصل کر سکیں اور اپنے آپ کو عالمی سطح پر ایک مضبوط تنظیم دکھا سکیں۔‘
خیبر پختونخوا پولیس کے سابق سربراہ اختر علی شاہ کے خیال میں سکھ کمیونٹی پر حملوں کے پیچھے ملوث تنظیم بڑی خبر کا حصہ بننے کی وجہ پنہا ہو سکتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’دولت اسلامیہ کسی عام شہری کو نشانہ بنائے تو شاید یہ خبر میڈیا میں زیادہ بڑی جگہ نہ بنا سکے جبکہ غیر مسلم کو ٹارگٹ کرنے سے عالمی سطح کی خبر بن سکتی ہے۔
’دنیا کی نظر میں آنے کے لیے اکثر تنظمیں یہ کام کرتی ہیں کیونکہ اب سکھ کمیونٹی کے افراد کو ٹارگٹ کرنے سے باہر دنیا میں یہی تاثر جائے گا کہ پاکستان میں غیر مسلم غیرمحفوظ ہیں اور اس سے بڑی خبر بنے گی۔‘
پشاور میں داعش کی موجودگی اور اس کے حملوں سے متعلق اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ کسی شدت پسند تنظیم کی جانب سے حملے بظاہر ریاست کے لیے ایک چیلنج ہوتے ہیں۔ ’یہ ایسا ہی ایک سچ ہے بھلے آپ پاکستان میں دولت اسلامیہ کی وجود سے انکار کریں۔‘
ریاست کی جانب سے پاکستان میں داعش کے تنظیمی ڈھانچے کی موجودگی سے انکار کے دعوے پر اختر علی شاہ کا کہنا تھا: ’اگر حملے ہو رہے ہیں اور یہ دولت اسلامیہ نہیں کر رہی تو جو تنظیم کر رہی ہے اسے پکڑا جائے۔‘
سویڈن میں مقیم افغانستان و جنوبی ایشیا میں شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے عبدالسید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی وضع قطع کی وجہ سے آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں اور اسی لیے ہندوؤں کی نسبت انہیں تیزی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کے خیال میں سکھوں پر حملوں کے پیچھے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں جن میں داعش کے حامیوں اور مخالفین کو ایک پیغام دینا کہ تنظیم اب بھی عسکری قوت رکھتی ہے اور داعش کی بکھری ہوئی افرادی قوت کو ایک نظم کے تحت جمع کرنا ہے جیسا کہ 2020 کے اوائل میں افغانستان میں زمینی شکست کے بعد داعش نے شہری علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں کی طرف توجہ مبذول کی تھی۔
عبدالسید کا کہنا تھا کہ 2020 میں بھی پشاور سے متصل افغان صوبہ ننگرہار کے صوبائی دارالخلافہ جلال آباد اور ملک کے دارالحکومت کابل میں بھی اسی طرح سکھ برادری کے تاجروں، عام افراد اور ان کے مذہبی مقامات کو حملو و خودکش کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
’شاید اسی حکمت عملی کے تحت اب خیبر پختوانخواہ میں بھی افرادی قوت بڑھانے اور حمایت منظم کرنے کے لئے داعش آسان اہداف کو نشانہ بنا کر اپنے عسکری قوت کو ثابت کر رہی ہے۔‘
افغانستان میں بھی سکھوں پر حملے
ماضی میں داعش افغانستان میں بھی سکھوں کے ایک گوردارے پر حملوں کرنے کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے، جن میں مجموعی طور پر 27 سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد مارے گئے تھے۔
ان میں سے ایک حملے سے متعلق داعش نے امریکی خبر رساں ادارے کو بتایا تھا کہ یہ انڈین وزیر کی جانب سے توہین رسالت کا بدلہ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے کابل پر قبضے سے پہلے افغانستان میں تقریباً 400 سکھ خاندان آباد تھے، جو ایک سال بعد محض ڈیڑہ سو رہ گئے ہیں۔
اسی طرح کینیڈین ہاؤس آف کامنز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں 1992 سے پہلے سکھ اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو لاکھ تک افراد آباد تھے، جبکہ اب یہ تعداد ایک فیصد سے کم رہ گئی ہے۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارمنٹ کے رپورٹ کے مطابق 2017 میں سکھ اور ہندو کمیونٹی کے 1300 افراد رہ رہے تھے، جو اب 150 تک محدود ہوگئی ہیں جس میں زیادہ تر کابل میں بعض افراد غزنی صوبہ میں رہائش پذیر ہے۔
پشاور میں محلہ جوگن شاہ میں سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افردا رہائش پذیر ہے۔ اسی محلے میں ان کے گھر اور ساتھ میں گوردوارہ بھی موجود ہے۔
داعش کی تاریخ
یونائیٹڈ سٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف پیس کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015 میں قائم ہوئے والی داعش خراسان سے 2019 میں افغانستان میں کے چند علاقے خالی کروائے گئے جس کے بعد تنظیم نے شہری علاقوں میں جنگ کی حکمت عملی اپنائی۔
اسی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد داعش خراسان کے حملوں میں افغانستان اور خیبر پختونخوا میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
تحقیق میں موجود اعداد و شمار کے مطابق مئی 2019 سے جون 2021 (26 مہینے) کے دوران داعش خراسان نے خیبرپختونخوا میں 25 حملے کیے، جن میں نو افراد مارے گئے، تاہم جولائی 2021 سے دسمبر 2022 تک خیبر پختونخوا میں 66 حملوں میں 117 انسانی جانوں کا ضیا اور 200 افراد سے زیادہ زخمی ہوئے۔