جناح، منڈیلا اور گاندھی کی طرح مشن پر ہوں: عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنا موازنہ جدوجہد کرنے والے نیلسن منڈیلا، گاندھی اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح جیسے رہنماؤں سے کیا جن کا ’ایک مشن‘ تھا۔

عمران خان کا لاہور میں اپنی رہائش گاہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے خطاب (فائل فوٹو اے ایف پی)

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ان پر جتنے بھی مجرمانہ الزامات عائد کر دیے جائیں ان کی جماعت آئندہ اگلےعام انتخابات جیت کر دوبارہ اقتدار میں ہو گی۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دی انڈپینڈنٹ کو دیے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ’عسکری سوچ انتخابات کی باریکیوں کو نہیں سمجھتی۔ ایک بار جب لوگ ووٹ دینے کے لیے باہر نکل آتے ہیں تو آپ انہیں نہیں روک سکتے۔‘

انہوں کہا کہ ’میں آپ کو بتا رہا ہوں جب کبھی (انتخابات ہوئے) تو وہ لوگوں کو روک نہیں پائیں گے۔‘

ساتھ ہی عمران خان نے اپنا موازنہ جدوجہد کرنے والے نیلسن منڈیلا، گاندھی اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح جیسے رہنماؤں سے کیا جن کا ’ایک مشن‘ تھا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’وہ سیاست کو مشن کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں مثال کے طور پر نیلسن منڈیلا ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جب آپ واقعی اپنی آزادی کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں تو آپ اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ یا یہ (کہیں) کہ جناح یا گاندھی۔ یہ وہ رہنما تھے جن کی جانب میں دیکھتا ہوں کیوں کہ وہ بے لوث تھے۔ ان کا مقصد عہدے لینا نہیں تھا۔ ان کا ایک مشن تھا۔‘

سربراہ تحریک انصاف نے ایک بار پھر پاکستان کا وزیر اعظم بننے کی اپنی مہم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوئی ذاتی خواہشات نہیں ہیں۔

’میں نے سیاست کو بطور کیریئر کبھی اختیار نہیں کیا۔ میں کبھی کسی کے لیے، خاص طور پر اپنے بیٹوں کے لیے سیاست کو بطور کیریئر اپنانے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ میں ہمیشہ ان سے کہتا ہوں کہ سیاست میں کبھی نہ جانا کیوں کہ یہ سب سے برا کیریئر ہے۔‘

مئی میں عمران خان سمیت دوسرے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد بہت سے سینیئر رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چھوڑ دی تو بعض رہنماؤں نے عوامی سطح پر سابق وزیر اعظم کے نظریے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے نئی سیاسی جماعت بنا لی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بارے میں عمران خان کہتے ہیں کہ ’(پارٹی) چھوڑنے والوں میں اکثر لوگ بہت زیادہ دباؤ میں تھے۔ انہوں نے (حکام) نے ان کے کاروبار بند کر دیے۔ وہ ان کے خاندانوں کے پیچھے گئے۔ اس ملک میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ وہ (حکام) ان رشتہ داروں کے پیچھے گئے صرف اس لیے کہ وہ (تحریک انصاف کے رہنما) پارٹی چھوڑ دیں انہوں نے انہیں ’ڈیڈ سیلز‘ یعنی ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیا اور وہ آپ کی زبان بند کروا دیتے ہیں۔‘

عمران خان کے خیال میں ’حکومت ان کی جماعت کو کچلنے‘ کے لیے تمام تر زور لگا رہی ہے۔

’میری پوری سینیئر قیادت یا تو سلاخوں کے پیچھے ہے یا روپوش ہے۔ انہوں نے انہیں جیل میں ڈالا، ان پر بہت دباؤ ڈالا۔ بہت سے لوگ جیل کے حالات کو برداشت نہیں کر سکے کیوں کہ یہ سال کا گرم ترین وقت ہے۔‘

ان غیر معمولی چیلنجوں کے باوجود جن کا وہ اب سامنا کر رہے ہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ اب بھی ’وزیر اعظم بننا میری زندگی میں سب سے مشکل کام تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں نے کبھی ایک دن کی چھٹی نہیں لی سوائے ان پانچ دنوں کے جب میں کووڈ کا شکار ہو گیا۔ میں بستر پر رہا۔ ورنہ میں نے کبھی کوئی چھٹی نہیں لی اور یہ سب سے مشکل کام تھا جو میں نے اپنی زندگی میں کیا۔ یہ صرف کام تھا اور کچھ نہیں۔ وزیراعظم بننا آسان نہیں تھا۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ان دنوں متعدد مقدمات کا سامنا ہے جن کے حوالے سے انہیں آئے دن اسلام آباد اور لاہور کی عدالتوں میں پیش ہونا پڑ رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست