’طالبان قید میں مرنے کی دعائیں کیں‘: افغان خاتون

کابل پر طالبان کے کنٹرول کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب الهه دلاورزئی کو کابل کی ایک مارکیٹ سے اٹھایا گیا اور طالبان کے ایک اعلیٰ عہدے دار سے زبردستی ان کی شادی کروا دی گئی۔

الهه دلاورزئی آخر کار رواں سال اپریل میں 156 دن کی حراست کے بعد ملک سے فرار ہو گئیں۔ وہ اب بھی روپوش ہیں  (الهه دلاورزی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

کابل سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد بہت سی افغان خواتین کی طرح الهه دلاورزئی کی زندگی بھی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

کابل پر طالبان کے کنٹرول کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب الھہ دلاورزئی کو کابل کی ایک مارکیٹ سے اٹھایا گیا اور طالبان کے ایک اعلیٰ عہدے دار سے زبردستی ان کی شادی کروا دی گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ دو سال ایک ڈراؤنے خواب کا آغاز تھا اور پھر طالبان حکام نے انہیں 156 دنوں کے لیے جیل کی کوٹھری میں ڈال دیا۔

الھہ دلاورزئی کا الزام ہے کہ انہیں حراست کے دوران وحشیانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑ،  جس میں بھوکا پیاسا رکھنا، بدسلوکی اور پوچھ گچھ شامل ہے۔

افغانستان سے فرار ہونے کے چند دن بعد الھہ دلاورزئی نے ایک نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’کمروں سے قیدیوں پر تشدد کی آوازیں آتی ہیں، کچھ کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے اور آج بھی جب میں سونے کی کوشش کرتی ہوں تو مجھے وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔‘

25 سالہ الھہ دلاورزئی افغان فوج کے ایک تھری سٹار جنرل کی صاحبزادی ہیں، جو اب دوسری بار طالبان کے چنگل سے فرار ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنے طالبان شوہر کی جانب سے مبینہ طور پر زبردستی شادی، ریپ اور مار پیٹ کے بعد پہنچنے والے صدمے کا ذکر کیا ہے۔

اپنے شوہر کے مظالم کے خلاف بولنے اور فرار ہونے کے بعد انہیں دوبارہ پکڑ لیا گیا اور پانچ ماہ سے زیادہ کی قید کی سزا دی گئی، جس کے دوران انہیں بارہا بجلی کے جھٹکوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے دلاورزئی کابل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز میں جنرل میڈیسن کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حال تک پہنچنے سے پہلے وہ ایک ایسی زندگی کا تصور کرتی تھیں جو یقین دہانی اور آسودگی سے بھرپور ہو۔

لیکن یہ سب اس وقت بدل گیا جب طالبان جنگجوؤں نے 2021 میں مغربی حمایت یافتہ اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ کر دوبارہ اقتدار کا کنٹرول سنبھال لیا۔

وہ کہتی ہیں کہ طالبان کے طاقتور رہنما اور وزارت داخلہ کے سابق ترجمان سعید خوستی نے ان سے ’زبردستی‘ شادی کی اور پھر مہینوں تک ان کا ریپ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

الھہ دلاورزئی گذشتہ سال اگست میں خوستی کے گھر سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ فرار ہونے کے بعد انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی تھیں۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں انہیں خوستی کا سامنا کرتے ہوئے اور انہیں گھر سے نکلنے کے لیے کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس کے بعد وہ انہیں دھمکاتے ہیں کہ ان کے ساتھ مسلح افراد ہیں۔

تاہم ان کی یہ آزادی قلیل مدت کے لیے تھی کیونکہ تین ماہ بعد یعنی نومبر میں طالبان نے انہیں پکڑ کر حراست میں لے لیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ انہیں طالبان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے کابل میں ایک حراستی مرکز کے ایک چھوٹے سے کمرے میں قید کر رکھا تھا۔

الهه دلاورزئی آخر کار رواں سال اپریل میں 156 دن کی حراست کے ملک سے فرار ہو گئیں۔ وہ اب بھی روپوش ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انہیں ہر وہ دن یاد ہے جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور وہ ڈراؤنے خواب اب بھی انہیں تنگ کرتے ہیں۔

الهه دلاورزئی کا مزید کہنا ہے کہ انہیں حساس اعضا پر بجلی کے جھٹکے اور کھانے کے بغیر روزانہ صرف ایک گلاس پانی پر زندہ رہنے جیسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ طالبان کے دور حکومت میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کی علامت بن چکی ہیں۔

گذشتہ سال دسمبر میں الهه دلاورزی کے لاپتہ ہونے کے چند ہفتوں بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے طالبان حکام کو خط لکھا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ’اپنے خلاف ظلم و ستم اور مزید تشدد کے خوف کی وجہ سے پاکستان فرار ہونے کی کوشش کی تھی لیکن (پاکستانی حکام نے) انہیں ان کی مرضی کے خلاف واپس طالبان کے حوالے کر دیا تھا اور وہ اب جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس میں قید ہیں۔

خاتون کے خاندان نے ایمنسٹی کو مطلع کیا کہ وہ 11 نومبر 2022 سے لاپتہ ہیں۔

ایمنسٹی نے کہا کہ 30 نومبر 2022 کو دلاورزئی خاندان نے عالمی تنظیم کو بتایا کہ انہیں جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس میں رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتی ہیں کہ انہیں خطرات کا ادراک اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی ویڈیوز اور تصاویر آن لائن پوسٹ کیں، جن میں خوستی کے ہاتھوں مبینہ جنسی تشدد، مار پیٹ، تشدد اور ناروا سلوک کو دکھایا گیا تھا۔

ان کے بقول: ’میں ان کی لونڈی نہیں بننا چاہتی تھی لیکن طالبان نے میری آواز بند کرنے سے روکنے کے لیے مجھے جیل میں ڈال دیا۔ پہلے 96 دن مجھے ایک تاریک کمرے میں رکھا گیا تھا جہاں میں نے کابل کی ناقابل برداشت سردیوں کو برف جیسے ٹھنڈے فرش پر گزارا۔ کمرے کے اندر صفر درجہ حرارت کی وجہ سے میری ہڈیاں اب بھی درد کرتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ کوٹھری میں ڈالے جانے سے پہلے انہیں کپڑے اتارنے اور ایک پرانا مکمل ڈھکنے والا لباس اور سکارف دیا گیا جسے انہیں تبدیل کیے بغیر تقریباً 100 دن تک پہننا پڑا۔

دلاورزئی کے بقول: ’پھر مجھے ایک دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں طالبان سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے کچھ افراد نے مجھ سے سعید خوستی کے ہاتھوں بدسلوکی کی ویڈیو پوسٹ کرنے کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ اگر میں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ مغرب سے مجھے کون فنڈنگ کر رہا ہے تو وہ مجھے پانی کے پائپوں اور سلاخوں سے اس وقت تک مارتے رہیں گے جب تک مر نہیں جاتی۔‘

ان کے مطابق طالبان کی حراست کے دوران تشدد ان کی پہلی نظر بندی ایسی ہی تھی، جیسا کہ خوستی سے زبردستی شادی کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔

سعید خوستی اس سے قبل وزارت داخلہ کے ترجمان کے طور پر کام کرتے تھے جسے طالبان کا انٹیلی جنس ونگ کنٹرول کرتا ہے۔

ان کے بقول: ’وہ جواب حاصل کرنے کے لیے میرے پورے جسم اور خاص طور پر میرے حساس عضا پر حملہ کرتے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ سادہ کپڑوں میں نامعلوم افراد کمرے میں داخل ہوئے، جہاں ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی اور وہ نہیں جانتیں کہ وہ طالبان تھے یا صرف ان کا تماشا دیکھنے آتے تھے۔

دلاورزئی نے کہا: ’انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کون سا ملک میری پشت پناہی کر رہا ہے۔ وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ طالبان کے دو آدمی آتے تھے اور اگر آپ ان سے دوائی کی بھیک مانگتے تو وہ آپ کو کہتے کہ آپ اپنی پتلون کھینچ لیں تاکہ وہ آپ کو انجیکشن لگائیں۔ وہ درد کش گولی سے انکار کرتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ کھانے میں انہیں ایک گلاس پانی کے ساتھ روٹی کا ٹکڑا ملتا اور بہتر دنوں میں انہیں ابلی ہوئی پھلیاں دی جاتی تھیں، تاہم ان کے مطابق یہ ایک چھوٹے بچے جتنی خوراک لگتی تھی۔

دلاورزئی بتاتی ہیں کہ پانی کا رنگ سرخ اور کڑوا تھا جس میں کسی دوائی کے ساتھ تیزابیت کی واضح علامتیں تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانی پینے کے فوراً بعد انہیں غنودگی محسوس ہوئی اور اس کے بعد وہ دن کا زیادہ حصہ یاد نہیں کر سکتی تھیں۔

ماہواری کے دنوں میں انہوں نے تقریباً ایک ہفتہ ایک جگہ بیٹھے ہوئے گزارا کیوں کہ انہیں زیر جامے کے بغیر کپڑے کا صرف ایک ٹکڑا دیا گیا تھا۔

دلاورزئی نے کہا کہ جب وہ اپنے سیل سے باہر نکلیں اور جنرل ڈیٹینشن سیل میں دوسری خواتین سے ملیں تو انہیں معلوم ہوا کہ انہیں بھی پانی اور کھانے کے بعد اسی طرح کی یادداشت کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے مطابق ان کی ذہنی صلاحیت متاثر ہو رہی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اس سے قبل اپنی میڈیسن کی کتابوں کے ابواب صرف ایک رات میں یاد کر سکتی تھیں۔

ان کے بقول: ’پانی کو نگلنا بھی مشکل تھا لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اور ہم مزید مانگ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم کھانے یا چبانے کی حالت میں نہیں تھے۔ مجھے اپنے پیشاب میں خون نظر آنے لگا اور جب میں نے جیل انتظامیہ سے دوائی مانگی تو انہوں نے صرف پیراسیٹامول پیش کی۔

’میں درد میں مبتلا تھی اور دو ہفتوں تک خون میں لت پت۔ مجھے دن میں صرف ایک بار پانچ منٹ کے لیے بیت الخلا استعمال کرنے کی اجازت تھی اور باہر ایک گارڈ تعینات تھا۔ نہانے کی اجازت نہیں تھی اور میرے پورے جسم پر داغ پڑ گئے۔‘

سعید خوستی نے گذشتہ سال ان الزامات کے سامنے آنے کے فوراً بعد جسمانی تشدد کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ انہوں نے دلاورزئی سے دوسری شادی کی لیکن انہوں نے قرآن کی مبینہ توہین کا دعویٰ کرتے ہوئے طلاق کے لیے درخواست دائر کی۔

طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قان نے دی انڈپینڈنٹ کی فون کالز اور پیغامات کا جواب نہیں دیا۔

گذشتہ سال اگست میں پوسٹ کی گئی اپنی ایک آخری ویڈیو میں دلاورزئی نے کہا تھا: ’شاید کوئی مجھے دوبارہ نہ دیکھے اور میں مر بھی سکتی ہوں لیکن بار بار مرنے سے ایک بار مرنا بہتر ہے۔‘

اس بار وہ دعا کرتی ہیں کہ وہ چھپ کر رہ سکیں اور طالبان کے حوالے نہ کی جائیں۔

ان کے بقول: ’میں نے حراست میں اپنی موت کی دعائیں کی تھیں۔‘

طالبان کا موقف: اس خبر میں موجود دعوی غلط ہے۔ مصنفہ کو اتنی تحقیق کرلینی چاہیے کہ قاری سعید خوستی نے نکاح زبردستی نہیں بلکہ ان کی اور ان کے خاندان کی مرضی سے کیا تھا۔ الھہ کو اٹھایا نہیں گیا بلکہ کابل کے ایک مشہور وی آئی پی شادی ہال میں نکاح ہوا تھا۔ شادی کے دعوت نامے دونوں خاندانوں نے تقسیم کیے تھے۔ نکاح کی تقریب میں ایجاب قبول کے وقت دلہن کی وکالت خود ان کے والد نے کی تھی۔ شادی کی تقریب کی ویڈیو موجود ہے جس میں نکاح خوان، الھہ کے والد اور دیگر اہل خاندان کو دیکھا جاسکتا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین