پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے’دہشت گردی‘ میں ملوث ہونے کا اشارہ نہیں ملا: امریکہ

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پریس بریفنگ کے دوران کہا: ’ہمیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ پاکستان میں یا سرحد کے ساتھ افغان پناہ گزین دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہوں۔‘

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ پاکستان میں یا سرحد کے ساتھ افغان پناہ گزین دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہوں۔

جان کربی نے یہ بیان پیر کو وائٹ ہاؤس میں پریس سیکریٹری کیرین جین پیری کے ہمراہ مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں دیا۔

جان کربی سے سوال کیا گیا تھا کہ ’اسلام آباد کا موقف ہے کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی سے عدم استحکام پیدا ہوا ہے اور اسلام آباد نے افغانستان پر پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو پناہ دینے اور افغانستان میں ان کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس پر وائٹ ہاؤس کا موقف کیا ہے؟ اور کیا وائٹ ہاؤس ایسا کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟‘

جس پر جان کربی نے جواب دیا: ’ہمیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ پاکستان میں یا سرحد کے ساتھ افغان پناہ گزین دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہوں۔ ہم محفوظ جگہ کی تلاش کرتے افغانوں کے لیے پاکستان کی اس ناقابل یقین فراخدلی کے لیے شکر گزار ہیں، ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے، جیسا کہ ہم ان کے دہشت گردی کے حقیقی خطرات اور انسداد دہشت گردی کے چیلنجز کے حوالے سے کام کرتے رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں فضائی کارروائی (over-the-horizon capability) کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے کوئی قیاس آرائی نہیں کروں گا۔ میرا مطلب ہے کہ صدر یہ واضح کر چکے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی فضائی صلاحیت کو سنجیدگی سے بڑھائیں گے اور جب ضرورت ہوگی تو موثر انداز میں اس کا استعمال کریں گے۔‘

دوسری جانب امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ ’طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکے۔‘

پیر کو ایک پریس بریفنگ کے دوران میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ ’آج (پیر) کو پاکستان میں کور کمانڈرز کی کانفرنس ہوئی جس میں انہوں نے افغانستان پر زور دیا کہ وہ وہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرے جو پاکستان میں آکر کارروائیاں کر رہے ہیں اور یہ ایک ہفتے میں دوسرا موقع ہے جب پاکستانی فوج نے کھلے عام افغانستان سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ورنہ وہ ان کے خلاف خود کارروائی کریں گے۔‘

جس پر میتھو ملر نے جواب دیا: ’میں اس پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کروں گا لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکے۔‘

امریکی عہدیداروں نے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں دیے ہیں جب گذشتہ روز ہی پاکستانی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو ہمسایہ ملک میں حاصل محفوظ ٹھکانوں، کارروائیوں کی آزادی اور جدید اسلحے تک رسائی وہ اہم عناصر ہیں، جن سے پاکستان کی سکیورٹی صورت حال متاثر ہو رہی ہے۔

اس سے قبل جمعے (14 جولائی) کو بھی پاکستانی فوج کی جانب سے ایک بیان میں پاکستان میں ’دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث‘ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے دو بڑے حملوں میں 12 پاکستانی فوجی جان کی بازی ہار گئے تھے، جس کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اہم پہلو ہے، جس کا تدارک ضروری ہے۔ ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز اس کا موثر جواب دیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کو دوحہ معاہدے کے مطابق عبوری افغان حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

فروری 2020 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے ذریعے نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا سمیت اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ ’افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔‘

افغان طالبان کے ترجمان اور پاکستانی وزیر دفاع کے مابین بھی اس معاملے پر لفظی جنگ جاری ہے۔

گذشتہ ہفتے افغان طالبان کے اقوام متحدہ میں نمائندے سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے، اگر وہ پاکستان کے اندر ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے، ہماری نہیں۔‘

جس کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے (15 جولائی) کو کہا تھا کہ افغانستان نہ تو ہمسایہ ملک ہونے کا حق ادا کر رہا ہے اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا تھا کہ ’50 سے 60 لاکھ افغانوں کو تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 40، 50 سال سے پناہ میسر ہے۔ اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔‘

وزیر دفاع نے مزید کہا تھا کہ ’یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گا۔‘

جس پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دوحہ معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان تھا، نہ کہ پاکستان کے ساتھ اور ’اس لیے پاکستان کے حوالے سے طالبان حکومت کی پالیسی مختلف ہے۔‘

جس کے جواب میں گذشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ افغانستان کے موقف سے قطع نظر ’پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے‘ کے لیے پرعزم ہے۔

وزیر دفاع نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں مزید کہا تھا کہ ’یہ اس بات سے قطع نظر ہے کہ کابل اپنی سر زمین سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کی خواہش رکھتا ہے یا نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ