جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں پولیس نے بتایا کہ اس نے تین بہنوں کے مبینہ قاتل اور بڑے بھائی کو ہاتھ پر لگے زخم کی مدد سے گرفتار کر لیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) حسنین حیدر کے مطابق مقتولین کی گمشدگی کی رپورٹ کا مدعی باسط ہی مبینہ قاتل نکلا، جس نے اعتراف جرم کر لیا۔
پولیس کے مطابق اس نے 12 گھنٹے میں اندھے قتل کا سراغ لگا کر ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد مزید قانونی کارروائی شروع کر دی۔
ایس پی انویسٹیگیشن مظفرگڑھ تنویر احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ تھرمل کالونی کے رہائشی اور سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرنے والے محمد اعجاز کی دو بیٹیاں سات سالہ ابیہا، آٹھ سالہ زہرا گھر سے باہر کھیلنے گئیں لیکن واپس نہ آئیں تو ان کی بڑی بہن عریشہ انہیں تلاش کرنے گئی، وہ بھی واپس نہ آئی۔
بچیوں کے اہل خانہ نے تھانے میں مقدمہ درج کروایا جس میں ملزم باسط مدعی بنا۔
تنویر احمد نے مزید بتایا کہ منگل کو اعجاز کے گھر مہمان آئے جن کے لیے گھر سے ملحقہ خالی مکان کا دروازہ جو ان کے صحن میں کھلتا تھا، وہاں سے چارپائی نکالنے کے لیے ایک کمرے کا دروازہ کھولا گیا تو تینوں بچیوں کی گلے کٹی لاشیں ملیں۔
تنویر کے مطابق انہوں نے فوراً پولیس کو مطلع کیا جس نے لاشوں کو پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ہسپتال بھجوا دیا۔
ڈی پی او مظفر گڑھ حسنین حیدر نے بتایا کہ پولیس نے شک کی بنیاد پر مقتوین کے تین بھائیوں کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پوچھ گچھ کے دوران ملزم باسط کے ہاتھ پر زخم کا نشان پایا گیا جس پر تفتیشی ٹیم نے وجہ پوچھی مگر وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ پولیس نے مذید تفتیش کی تو ملزم نے اقبال جرم کر لیا۔‘
مدعیت کا معاملہ:
ایف آئی آر کے مطابق بچیوں کے قتل کا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے اور ملزم باسط اس میں نامزد ہے۔
قانون دان میاں داؤد نے بتایا چونکہ قندیل بلوچ قتل کیس میں ان کے بھائی ملزم وسیم بری ہو چکے ہیں، جس کی وجہ مقدمے کے مدعی قندیل کے والد نے اپنے بیٹے کو معاف کر دیا تھا۔
میاں داؤد کے مطابق اسی وجہ سے اب پولیس ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اس طرح کے مقدمات میں خود مدعی بنتی ہے۔