سابق وزیراعظم عمران خان نے ان کے خلاف دائر توشہ خانہ کیس میں بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا ہے کہ مقدمے میں درج تخائف انہوں نے خود نہیں بلکہ اس وقت کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر وسیم چیمہ کے ذریعے بیچے، جنہیں عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کر سکتی۔
عمران خان منگل کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں ان کے خلاف دائر توشہ خانہ مقدمے میں بیان ریکارڈ کرایا۔
عدالتی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کا 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔
عدالت نے 35 سوالات کے جوابات کو دوبارہ دہرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت میں مختصر وقفہ کیا اور وقفے کے بعد جج نے عمران خان سے استفسار کہ کیا آپ نے جو جوابات دیے ہیں، ان سے مطمئن ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا: ’جی میں اپنے جوابات سے مطمئن ہوں۔‘
اس پر عدالت نے مزید پوچھا ’کیا آپ اپنے حق میں دفاع پیش کریں گے؟‘، جس کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی صفائی میں شواہد پیش کریں گے۔
اس کے بعد عمران خان نے اپنے ریکارڈ کروائے گئے 342 کے بیان پر دستخط کیا۔
عدالت نے عمران خان کو گواہان کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت اگلے دن تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے کہا کہ پرائیویٹ گواہان کی فہرست کل ہی فراہم کر دیں، جبکہ سرکاری گواہان کے لیے عمران خان کے وکیل نے دو دن کا وقت مانگا۔
آج کی سماعت کی تفصیل:
منگل کو توشہ خانہ ٹرائل منگل کی صبح شروع ہوا، جب عمران خان کی عدم موجودگی کے باعث سماعت میں ساڑھے بارہ بجے تک وقفہ کیا گیا۔
وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جج ہمایوں دلاور نے کمرہ عدالت میں موجود عمران خان کو کہا کہ میں سوالات سنا رہا ہوں، جوابات دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو روسٹرم پر پیش ہونے کی ہدایت کی۔
جج ہمایوں دلاور نے عمران خان سے کہا کہ عدالت کی جانب سے سوالات پڑھے جائیں گے۔ ان سے دتیافے کیا گیا کہ کیا انہوں نے شکایت کنندہ کے الزامات پڑھے؟
چیرمین پی ٹی آئی عمران خان روسٹرم پر آئے اور جواب دیا کہ انہوں نے شکایت کنندہ کے بیانات نہیں سنے، کیونکہ وہ ان کی موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوئے تھے۔
’میری موجودگی میں فردجرم عائد نہیں کیا گیا، مجھے فرد جرم پڑھ کر نہیں سنایا گیا۔ نہ میں نے کسی کو نمائندہ مقرر کیا۔ سیشن عدالت نے خود ہی میرا نمائندہ مقرر کر دیا۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ان کی غیر موجودگی میں گواہان کا بیان ریکارڈ کرنے کا قانون اجازت نہیں دیتا۔ ان کی غیر موجودگی میں قلمبند کیا گیا گواہان کے بیانات ان کے سامنے نہیں پڑھے جا سکتے۔
’میرے مقرر کردہ نمائندے کا موقف ٹھیک سے نہیں لکھا گیا۔ گواہات کے بیانات مجھے عاشورہ کی چھٹیوں کے دوران مہیا کیے گئے۔ 17 جولائی کو مجھے گواہان کے بیانات کی کاپی فراہم کی گئی۔ 31 جولائی کو مکمل دن میں عدالت میں رہا اور گواہان کے بیانات پڑھے۔‘
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کا 342 کا بیان
عدالت میں سابق وزیراعظم عمران خان نے 342 کا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے شکایت دائر کرنے کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر شکایت 120 دنوں کے بعد دائر کی گئی۔ میں نے 2018-17، 2018-19، 2019-20 اور 2020-21 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے۔‘
عمران خان نے مزید کہا: ’اسپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا، جو بدنیتی پر مبنی تھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے بھیجے گئے ریفرنس میں قانون کو غلط طریقہ کار سے سمجھا گیا تھا۔ مجھ پر ریفرنس میں 2017-18 اور 2018-19 کے اثاثہ جات کا ذکر کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اگلے سالوں کے اثاثہ جات تک بھی رسائی حاصل کی جو پی ڈی ایم کی بدنیتی ظاہر کرتی ہے۔‘
عمران خان نے بیان میں کہا: ’2018-19 میں دائر جواب میں میں نہیں کہا کہ 58 ملین روپے نجی بینک میں جمع کروائے۔ قانون میں نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کروائیں جائیں، الیکشن کمیشن کے فارم ب میں تحائف کے نام لکھنے کا کالم موجود ہی نہیں۔
’لسٹ بناتے وقت تحائف کی تفصیلات نہیں بنائی گئیں، لسٹ بناتے وقت کسی نے تحائف کی مالیت کی تفصیلات بھی نہیں بنائیں، گواہان نے تحائف کی مالیت کا چالان بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا: ’مجھ سے تخائف کے حوالے سے دستاویزات بناتے وقت رابطہ نہیں کیا گیا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو سوالنامے میں نہیں لکھا جا سکتا، تحائف کے حوالے سے دستاویزات مہیا کرنے والا بطور گواہ عدالت پیش نہیں ہوا، تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو نہ تصدیق کیا گیا نہ اس کی شہادت لی گئی، کسی فرد نے تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا بطور گواہ اقرار نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا: ’کابینہ ڈویژن سے کسی گواہ کو پیش نہیں کیا گیا، تحائف کی مالیت سے متعلق بھی استغاثہ نے کوئی گواہ پیش نہیں کیا، استغاثہ نے ان دستاویزات میں سے کسی ایک کو گواہ پیش نہیں کیا، میں نے جواب میں نہیں کہا کہ 58 ملین کی رقم بنک میں وصول کی۔‘
انہوں نے بیان میں مزید کہا: ’الیکشن کمیشن کے فیصلے میں درج تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا کبھی مجھ سے پوچھا ہی نہیں گیا۔ کیبینٹ ڈویژن کی جانب سے کوئی گواہ شکایت کنندہ عدالت میں نہیں لایا گیا۔ دستاویزات 160 صفحات پر مشتمل ہیں لیکن شکایت کنندہ اس حوالے سےکوئی گواہ سامنے لایا نہ کوئی ایسا گواہ سامنے لایا جس کے سامنے تحائف کے حوالے سے دستاویزات تشکیل دیے گئے ہوں۔ تخائف کے حوالے سے دستاویزات کو بطور ثبوت عدالت میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
’بینک ریکارڈ قابل قبول شہادت نہیں۔ بنک ریکارڈ وصول کرنے والے کسی گواہ کو پیش نہیں کیا گیا۔ جس افسر نے ریکارڈ تیار کیا اسے بھی گواہ نہیں بنایا گیا۔ استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ یہ کمپیوٹر سے بنائی گئی دستاویزات ہیں۔
’بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ میری غیر موجودگی میں الیکشن کمیشن نے طلب کیا۔ بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ لینے اور جمع کروانے والا فرد بطور گواہ پیش نہیں ہوا۔ مجھ سے 2018-19 میں چار تحائف کا پوچھنا درست نہیں کیونکہ میرے پاس اسی سال یہ تخائف موجود نہیں تھے۔ شکایت کنندہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ 2018-19 میں چار تحائف میرے پاس ہی تھے یا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے 2018-19 میں غلط اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے۔ 2019-20 میں تین تحائف کا پوچھنا درست نہیں کیونکہ میرے پاس تحائف موجود نہیں تھے۔ شکایت کنندہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ 2019-20 میں تینوں تحائف میرے پاس تھے یا نہیں۔ میں نے 2019-20 میں غلط اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے۔
’میں نے 2020-21 میں اپنے ظاہر اثاثہ جات میں قیمتی تحائف کا ذکر کیا جس کے لیے 11 ملین روپے ادا کیے۔ میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے قیمتی تحائف کا ذکر الیکشن کمیشن میں دائر اثاثہ جات میں کیا۔ توشہ خانہ تحائف ذاتی استعمال کے لیے تھے، جن کا ذکر میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے دائر اثاثہ جات میں کیا۔ 2020-21 میں جمع کروائے گئے چالان توشہ خانہ، کیبنٹ ڈویژن اور الیکشن کمیشن میں بھی جمع ہیں، اس کے علاوہ اس کے ٹیکس ریٹرن بھی جمع کرائے۔عجیب ہے کہ الیکشن کمیشن نے پانچ تحائف پر کیسے اخذ کر لیا کہ میں نے جمع نہیں کروائے۔
’ستر سالہ تاریخ میں الیکشن کمیشن یا نیب نے توشہ خانہ کا ریکارڈ کبھی مانگا؟ مجھ سے تحائف کا صرف اس لیے پوچھا جارہا ہے کہ مجھے نااہل کر سکیں؟ میرے خلاف فوجداری کی شکایت دائر کی گئی، شکایت کنندہ پر لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تحائف میرے پاس تھے جو اس نے ثابت نہیں کیے۔ میں نے تخائف ذاتی طور پر نہیں بیچے۔ میں نے اس وقت اپنے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر وسیم چیمہ کے ذریعے تخائف بیچے، جن کو عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کر سکتی۔ الیکشن کمیشن نے آج تک کسی سے توشہ خانہ تحائف کے خریداروں کے نام نہیں پوچھے۔ فوجداری کارروائی میں شکائت کنندہ کو ثابت کرنا ہےکہ تحائف میرے پاس تھے جو میں نے ظاہر نہیں کیے۔
’تحائف بیچنے کے بعد وصول کردہ رقم اثاثہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ میرا اسسٹنٹ فیصلہ کرتا ہےکہ اثاثہ جات کی کون سی تفصیلات مہیا کرنا ہے یا نہیں۔ میں نے توشہ خانہ تحائف اپنے پاس پچاس فیصد قیمت پر رکھے۔‘