پاکستان کی قومی اسمبلی کے آخری دن

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو قومی اسمبلی کے آخری دنوں کے دوران جلد بازی میں کی جانے والی قانون سازی کے باعث تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان میں اتحادی حکومت اقتدار کے آخری دنوں میں پارلیمان سے اہم بل منظور کروانے میں تو کامیاب گئی لیکن جلد بازی میں کی جانے والی قانون سازی کے باعث تنقید کی زد میں بھی رہی۔

نہ صرف حزب اختلاف بلکہ خود اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمان بھی حکومت سے اس سلسلے میں نالاں نظر آئے۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب میں سابق حکمران جماعت پر زور دیتے رہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔

ان کے بقول 15 ماہ کے دور حکومت میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت بھی یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

اتحادی حکومت کو سینیٹ میں بعض معاملات پر شدید مخالفت کا سامنا رہا۔

ماضی میں ایسا بہت کم ہوا کہ کوئی سینیٹر پارلیمان کے ایوان بالا چیئرمین کے ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاج کریں، جبکہ سابق چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے چند روز قبل ایسا کر کے تاریخ رقم کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر شدید مخالفت کے بعد حکومت کو ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ کے گرفتاری کا اختیار دینے کی شق واپس لینا پڑی تو دوسری جانب جہاں سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے اراکین وفاقی اردو یونیورسٹی سے متعلق بل کی مخالفت کر رہے تھے وہیں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی ہی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا اور بل کی حمایت کی۔

حکومت کے آخری دنوں میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے چیمبر کے باہر سیاستدانوں سمیت میڈیا کا بھی تانتا بندھا رہا۔اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل ہی اسمبلی اراکین نے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے الوداعی ملاقاتیں بھی کیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست