سپریم کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کی واپسی پر اثر انداز نہیں ہو گا: سابق وزیر قانون

سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے آئین کے متصادم قرار دیا ہے۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کا ایک منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعے کو ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔

آج اپنے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔ 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے جو 33 صفحات پر مشتمل ہے۔ 

سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق ’یہ ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔‘

حکم نامے کے مطابق ’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ یہ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔‘

عدالت نے کہا کہ ’ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم ضروری ہو۔ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔

’سائیلن سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کر دیں گے، اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلے دیے گئے ان پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے۔‘

حکم نامے کے مطابق ’عدالت قانون کو کالعدم قرار دینے میں بہت محتاط رہتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بہت محتاط طریقے سے ایکٹ کا جائزہ آئین کی روشنی میں لیا۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ ’ہر ممکن کوشش کی کہ دیکھا جائے کہ ریویو ایکٹ آئین سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔ عدالت اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ واضح طور پر آئین کی بیشتر شقوں کے خلاف ہے اور کسی بھی صورت میں سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔‘

حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام نظرثانی اپیلیں آرٹیکل 188 کے تحت ہی دائر کی جا سکتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’نظرثانی کے دائرہ کار پر سپریم کورٹ کے فیصلوں میں کوئی ابہام نہیں۔ آرٹیکل 188 اور اس پر عدالتی فیصلوں کی پابندی سب پر لازم ہے۔‘

عدالت نے پارلیمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’پارلیمان کو علم ہے کہ اپیل اور نظرثانی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔‘

فیصلے کے مطابق ’بھرپور کوشش کے باوجود عدالت نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کو آئین سے متصادم پایا ہے۔‘

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سنایا ہے۔

چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس تین رکنی بینچ  میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ 

یصلے میں کہا گیا کہ ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ 

فیصلہ سنانے کے دوران کمرہ عدالت میں اٹارنی جنرل، درخواست گزاروں سمیت وکلا کی بڑی تعداد موجود تھی۔سپریم کورٹ نے چھ سماعتوں کے بعد 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تین کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ 

ایکٹ کے تحت اپیل سننے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سننے والے سے زیادہ ہونا لازم ہے، ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ میں اپیل کے لیے فریقین کو نیا وکیل بھی کرنے کی اجازت ہوگی۔ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں نظرثانی اپیلیں لارجر بینچ سنے گا۔ 

’فیصلہ نواز شریف کی واپسی پر اثر انداز نہیں ہو گا‘

سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف کی نااہلی سے متعلق مقدمات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

انہوں نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے فیصلے کو 'بدقسمتی' قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی روایت نہیں کہ عدالتیں بار بار پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت کریں اور ایسے فیصلے دیں جو اس کی آزادی کو نقصان پہنچائیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فیصلہ نواز شریف کی متوقع پاکستان واپسی میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے تو تارڑ نے کہا بالکل نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کے تحت قانون سازوں کی نااہلی کو پانچ سال تک محدود کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نااہلی کی مدت میں توسیع بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ سیاست میں حصہ لینا، عوام میں جانا، عوام سے ووٹ مانگنا بنیادی حقوق ہیں۔

تارڑ نے مزید کہا کہ نواز شریف اور درجنوں دیگر افراد جو صرف آرٹیکل 184 (3) کے مقدمات میں نااہل قرار دیے گئے تھے، پانچ سال بعد اب الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 232 (جرائم کی وجہ سے نااہلی) کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ قانون صرف نواز شریف کے لیے مخصوص نہیں اور یہ کہ اس فیصلے کا نواز شریف کے مقدمات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد سنایا گیا، جس کا مطلب ہے کہ قانون کو واپس اس کے پاس نہیں بھیجا جا سکتا، اور ’پارلیمنٹ فوری طور پر اسے دوبارہ نافذ نہیں کر سکتا۔‘

پاکستان تحریک انصاف سمیت انفرادی حیثیت میں دیگر وکلا نے اس ایکٹ کو چیلنج کیا تھا۔ 

صوبہ پنجاب انتخابات کیس میں حکومت نے ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ پیش کر کے بینچ پر اعتراض اٹھایا تھا۔

اس ترمیم کے حوالے سے چہ مہ گوئیاں کی جا رہی تھیں کہ یہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی سزاؤں کو ختم کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔ تاہم جیو نیوز کے لیے سپریم کورٹ سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی عبدالقیوم صدیقی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے نواز شریف کی نااہلی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ایک اور بل کے ذریعے نااہلی کی مدت پانچ کی جا چکی ہے اور سپریم کورٹ نے اس ترمیم کو مسترد نہیں کیا۔

صحافی حسنات ملک نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘سپریم کورٹ سپریم ہے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان