پاکستان کے سابق وزیراعظم شہباز شریف اور سابق اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے ہفتے کو نگران وزیراعظم کے طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کاکڑ کے نام پر اتفاق کیا ہے، جن کی سربراہی میں قومی اسمبلی کے آئندہ عام انتخابات منعقد ہوں گے۔
انوار الحق کاکڑ اور ان کی کابینہ قومی انتخابات کے انعقاد تک حکومتی امور چلائیں گے اور الیکشن میں جیتنے والی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرکے نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے گی۔
تاہم سبکدوش ہونے والی حکومت کی جانب سے اپنے آخری دنوں میں نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کو پہلے نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی۔
الیکشن کمیشن کو اس بات کا اعلان کرنا ہے کہ حلقہ بندیوں کو مکمل کرنے میں کتنا وقت لگے گا جس میں امیدواروں کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کو لے کر قانونی چارہ جوئی بھی شامل ہو سکتی ہے اور اس عمل کو بنیاد بناتے ہوئے انتخابات کی تاریخ بھی دی جا سکتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان میں نگران سیٹ اپ کو پیش آنے والے ممکنہ چیلنجز سے متعلق کچھ ماہرین سے گفتگو کی ہے، جنہوں نے مہنگائی اور آئی ایم ایف کو نگران حکومت کا سب سے اہم چیلنج قرار دیا۔
سابق وزیر خزانہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا: ’نگران حکومت کو کتنے چیلنجز درپیش ہوں گے یہ کابینہ کی تشکیل کے بعد پتہ چلے گا۔
’دیکھنا ہے کہ وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کون آتے ہیں۔ یہ نگران حکومت کو کون کون سے اور کتنے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق ملک کی معیشت جن حالات سے گزر رہی ہے اس میں نگران حکومت کو مضبوط اقدامات لینا ہوں گے۔
’انہیں (نگران حکومت کو) منصوبوں کے تسلسل اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کا اختیار پہلے ہی مل چکا ہے اور ان ڈیلز کو حتمی شکل دینا پڑے گی۔‘
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ آئندہ سال مارچ میں ملکی معیشت کو ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا ہو گا کہ کس طرح آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم آئینی اور پارلیمانی اُمور کے ماہر اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کے خیال میں نگران حکومت کی تین ماہ کی زندگی اتنی لمبی نہیں کہ اس دوران کوئی زیادہ چیلنجز درپیش ہو۔
ان کا کہنا تھا: ’قیمتیں میں اضافے کی صورت میں نگران حکومت پر ہی الزام تو لگے گا لیکن عوام سمجھتی ہے کہ عارضی حکومت اس سب کی ذمہ دار نہیں ہو سکتی۔‘
صحافی محمل سرفراز کے مطابق نگران حکومت کو کسی معاشی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ سابق حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کے لیے تمام اہم فیصلے کیے ہیں اور نگران حکومت کو بس پلان پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی چیلنج
احمد بلال محبوب نے نگران حکومت کو سیاسی چینلج کا امکان رد کرتے ہوئے کہا: ’اگر کوئی غیر معمولی صورت حال پیدا ہوتی ہے، یعنی نگران حکومت کی مدت بڑھانے کا فیصلہ ہوا تو پھر یہ معاملہ عدالتوں میں جائے گا۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق سیاسی استحکام اور انتخابات کا انعقاد نگران حکومت کے لیے چیلنجز ہیں حالانکہ اس میں زیادہ کردار الیکشن کمیشن کا ہے لیکن اس سب میں نگران سیٹ اپ کو مائنس نہیں کر سکتے۔