ایران کے شہر شیراز میں اتوار کی شب شاہ چراغ مزار پر مسلح حملہ آور کی فائرنگ سے ایک شخص جان سے گیا جبکہ سات افراد زخمی ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ابتدائی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ مزار کے دروازوں پر سکیورٹی گارڈز کا سامنا کرنے کے بعد حملہ آور نے لوگوں پر فائرنگ کی۔
صوبہ فارس کے ڈپٹی گورنر اسماعیل قزلسفلی نے حملہ آور کو ’تکفیری‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور عدالتی حکام اس سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔‘
شاہ چراغ نامی اس مزار کو گذشتہ سال اکتوبر میں بھی ایک بڑے ’دہشت گرد‘ حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 13 افراد مارے گئے تھے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے مزار پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
ارنا کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے زخمیوں کو مکمل طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس حملے سے متعلق ابتدائی اطلاعات میں چار افراد کے مارے جانے کی خبر سامنے آئی تھی تاہم بعد میں یہ رپورٹ واپس لے لی گئی۔
سرکاری ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے پاسداران انقلاب کے فارس کمانڈر یداللہ بوعلی نے کہا کہ فائرنگ کرنے والا مسلح شخص اکیلا تھا جسے کچھ ہی دیر بعد گرفتار کر لیا گیا۔
بوعلی نے کہا کہ ’ایک دہشت گرد مزار کے گیٹ میں داخل ہوا اور اس نے جنگی رائفل سے فائرنگ شروع کر دی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبہ فارس کے گورنر محمد ہادی ایمانیہ نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ حملہ مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے کے قریب ہوا۔
سرکاری ٹی وی کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبولینسیں حملے والی جگہ کی طرف جاری ہیں۔
اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی۔
مزار شاہ چراغ کو جنوبی ایران کا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
گذشتہ سال 26 اکتوبر کو مزار پر فائرنگ کے نتیجے میں 13 افراد مارے گئے تھے جبکہ 30 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بعد ازاں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔