کچھ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے سمندر کا رزق ہوئے اور ہوتے رہیں گے، کچھ بستر پہ لیٹے موت کی آہٹ سنتے ہیں۔ غربت میں لتھڑے تیسرے درجے کے ملکوں کا عام آدمی، اسد عباس بھی انہی میں سے ایک تھا۔ ایک قدم شہرت کی بلندی پر، دوسرا بے بسی کی کھائی میں۔
کوک سٹوڈیو سے شہرت پانے والے اسد عباس 15 اگست کو طویل عرصہ گردوں کی بیماری کا مقابلہ کرنے کے بعد جان کی بازی ہار گئے۔
ہم نے پہلی بار اسد کا نام سوشل میڈیا پر دیکھا۔ پتہ چلا وہ گلوکار ہے۔ اپیل کر رہا تھا کہ وہ بہت تکلیف میں ہے، گردوں کی بیماری ہے، ڈائیلسس برداشت سے باہر ہے اور اتنی رقم نہیں کہ باقاعدہ علاج کروا سکے۔
گیت سنے تو کوئی پسند نہ آیا۔ بےکیف آواز، بےرنگ انداز۔ لیکن ہمدردی اور تجسس برقرار رہا۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اسد عباس کا گھرانہ موسیقی سے وابستہ تھا۔ نہ تعلیم نہ مواقع۔ اسد یہ کام اس لیے کر رہا تھا کہ اس کے بڑے کر رہے تھے۔ اسد غربت کی زندگی جی رہا تھا، اس لیے کہ اس کے بڑے ایسے ہی جی رہے تھے۔ موسیقی اور غربت اسد کو ورثے میں ملی تھی۔
2008 اسد کی زندگی میں فیصلہ کن سال رہا۔ ہر فنکار تالیوں کی گونج میں سٹیج پر اپنا سواگت چاہتا ہے۔ روشنیوں بھرا حال، اپنے نام کا چرچا اور سامعین کا پرجوش ردعمل۔ اسد کو پہلی مرتبہ ’سنگیت آئیکون‘ کے مقابلے میں یہ خوبصورت تجربہ ہوا۔ وہ ملکی سطح پر ہونے والا موسیقی کا یہ مقابلہ جیت کر پہلے نمبر پر آ گئے تھے۔ انہیں انعام میں ایک کروڑ روپیہ اور ایک مرسڈیز ملی۔ کیسے خوابناک دن ہوں گے؟ کچھ روز کیسی سرشاری رہی ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسد نے سوچا ہو گا کہ اب وہ بھوک سے نہ مرے گا۔ وہ خود کیا اس کی آنے والی نسلیں بھی آٹے چینی کے جھنجھٹ سے آزاد ہو گئی ہیں۔
نئے خواب، نیا سفر، نیا جوش۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے پاس پیسہ اندھا اور موسیقی کے اعتبار سے ان کی سماعتیں بہری ہیں۔ بے جان آواز والے اسد کو دھڑا دھڑ شو ملنے لگے۔ اس نے خوب پیسہ کمایا۔
اس دوران اسد عباس نے کوک سٹوڈیو کے سیزن 6 میں گایا، ’کدی آ وے ماہی گل لگ وے۔‘ آپ کو پسند آئے یا نہ آئے، اسد کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
اسد اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ایک دن شو کر کے آیا، کھانا کھایا اور سو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔ ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا دونوں گردے کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ یہ اس بھیانک سفر کا آغاز تھا جس کا اختتام اسد کی موت سے ہوا۔
ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ٹرانسپلانٹ کروا لو، تب یہ مسئلہ حل ہو گا۔ بڑے بھائی کا گردہ اسد کے گردے سے میچ ہو گیا۔ ٹرانسپلانٹ ہوا، اسد اپنے گھر واپس آیا اور اچھے دنوں کی امید میں نیلی پیلی گولیاں پھانکنے لگا۔
کچھ ہی عرصے میں دوبارہ طبعیت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ دوبارہ ٹیسٹ کروانے پر معلوم ہوا کہ جو گردہ ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا وہ بھی ناکارہ ہو گیا ہے۔ یہ معاملہ بہت پیچیدہ تھا۔
ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کی بجائے بیرون ملک سے ٹرانسپلانٹ کروائیں، ایک ناقابلِ یقین صدمہ۔
اسد نے معروف پاکستانی گلوکار عالمگیر سے رابطہ کیا جنہوں نے مشورہ دیا کہ ’امریکہ بہترین رہے گا، میں بھی یہاں سے اپنے گردے کا ٹرانسپلانٹ کروا چکا ہوں۔‘
اسد نے امریکہ میں گردے کے ٹرانسپلانٹ کی لاگت پتہ کی، تقریباً پانچ کروڑ پاکستانی روپے درکار تھے۔
وہ اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’پاکستان سے علاج اور ٹرانسپلانٹ کروانے پر ان کا تقریباً ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوا تھا۔ جبکہ مجموعی طور پر اب تک وہ اپنے علاج پر تقریباً چھ سے سات کروڑ روپیہ لگا چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ہمارے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ سب لگ گئی، گھر بک گئے، گاڑیاں فروخت ہو گئیں۔ سب کچھ لگا دیا کہ جان بچ گئی تو دوبارہ سب کچھ حاصل ہو جائے گا۔ لیکن وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ موت کے مزید قریب ہوتے گئے۔
ان کے علاج میں ایک رکاوٹ مالی پریشانی اور دوسرا ایسے گردے کی عدم دستیابی تھی جو ان کے ساتھ میچ ہو سکے۔ بالعموم ایسا گردہ خاندان میں سے کوئی فرد عطیہ کرتا ہے لیکن وہ زیادہ ہی بدقسمت تھا۔ بڑی بہن کے جگر میں مسئلہ تھا۔ ایک بھائی بیمار تھا۔ ایک پہلے ہی گردہ دے چکا تھا۔ ماں اسد کی بیماری کے دوران ڈپریشن میں سے ہوتی ہوئی موت کے منہ میں جا چکی تھی۔
جہاں تک مالی امداد کا تعلق ہے تو اسد عباس انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’پاکستان کی انڈسٹری کے تمام بڑے فنکاروں نے مجھے فون کالز کی ہیں، مجھے حوصلہ دیا ہے کہ ہم آپ کے لیے کچھ کریں گے لیکن ابھی تک مجھے ان کی کالز ہی آئی ہیں اور حوصلہ ہی ملا ہے، تسلی ہی ملی ہے۔ ابھی تک مالی طور پر کسی نے میری مدد نہیں کی ہے۔‘
پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی کی طرف سے بھی اسد عباس کو علاج اور مالی تعاون فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جو پورا نہ ہو سکا۔
اسد کی موت پر لوگوں کا ردعمل حیران کن حد تک جذباتی تھا۔ اس کی آواز یا گائیکی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ کم کہہ سکیں یہ دنیائے موسیقی کا عظیم سانحہ ہے۔ لیکن ذاتی سطح پر یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔
ایک شخص غربت کی انتہا سے شہرت کی بلندیاں چھوتا ہے۔ چمک دمک کی زندگی کا آغاز ہوتے ہی خوفناک بیماریاں اسے گھیر لیتی ہیں۔ خاندان کی امیدیں ہی نہیں نبضیں بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ وہ سٹیج سے موت کے بستر پر آ پہنچتا ہے۔ ہمارے اندر ہمدردی کی ایک لہر انگڑائی لیتی ہے۔ شاید ہمیں اپنے انجام کا خوف ستانے لگتا ہے۔