عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ نے قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات کے بعد یورپی ممالک ڈنمارک اور سویڈن کو گذشتہ دنوں ایک دھمکی جاری کی ہے۔ ڈنمارک کی سکیورٹی اور انٹیلیجنس سروس نے تصدیق کی ہے کہ یہ دھمکی القاعدہ کے مرکزی نشریاتی ادارے ’الصحاب میڈیا‘ کی جانب سے سامنے آئی ہے۔
ڈنمارک میں ترکی، عراقی اور مصری سفارت خانوں کے باہر چند شدت پسند عناصر نے قرآن نذر آتش کیا، جس کے لیے انہیں مقامی پولیس کی جانب سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا تھا۔
2016 کے بعد پہلی بار ڈنمارک نے خطرے کے خدشات کی سطح کو تین سے بڑھا کر چار یعنی ’بہت زیادہ خطرے‘ تک بڑھا دیا ہے۔ سویڈش سکیورٹی سروس (ساپو) کے سربراہ شارلٹ وون ایسن نے کہا ہے کہ ملک اسلام پسند انتہا پسندوں کے لیے ’توجہ‘ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔
ڈنمارک اور سویڈن دونوں اپنی سرحدوں پر حفاظتی انتظامات سخت کر رہے ہیں اور روس پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ سکینڈے نیویا کے شہروں میں قرآن پاک کو جلانے کے خلاف بیرون ملک مظاہروں کے تناظر میں جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے والی مہمات کے ذریعے آگ بھڑکا رہا ہے۔
اس سے قبل سویڈن میں بھی ایسے واقعات ہوئے جس کے باعث مسلم ممالک کی برادری میں خصوصا اور عالم اسلام میں عمومی طور پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک جیسے عراق، ایران، لبنان اور یمن میں عوامی احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔
تاہم دنیا کا یہ ردعمل دیکھنے کے بعد ڈنمارک کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ مقدص نسخوں کو نذر آتش کرنے سے روکنے لیے قانونی ذرائع تلاش کرے گی۔
ڈنمارک کی وزارت خارجہ نے شدت پسند تنظیم کی جانب سے دھمکی موصول ہونے کے بعد ملک کے سفرا اور سفارت خانوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا ہے۔
ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے کہا کہ ’ہم اس دھمکی کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور فوری طور پر مختلف ممالک میں ڈنمارک کے سفارت خانوں پر سکیورٹی الرٹ جاری کر رہے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ڈینش سکیورٹی اور انٹیلیجنس سروس سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ انہوں نے اس معاملے پر کیا سکیورٹی اقدامات کیے ہیں۔ البتہ ان کی جانب سے اب تک اس معاملے پر اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں موجود بین الاقوامی تعلقات کے تھنک ٹینک یوروپا کے چیف تجزیہ کار جیکب کارسبو نے بتایا کہ ’یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور ڈنمارک کے خلاف ایک یقینی اعلان جنگ ہے۔‘
’القاعدہ نے انتہائی واضح الفاظ میں ڈنمارک کو دھمکی دی ہے اور یہ ایک خطرے کی علامت ہے۔ اگر فوری طور پر کارروائی نہیں کی گئی تو القاعدہ کو دہشت گردی کرنے لیے ایک پلٹ فارم مل سکتا ہے۔‘
ڈنمارک کے قانون میں تبدیلی
منہاج القرآن ڈنمارک کے صدر اور ڈینش مسلم یونین کے ترجمان ڈاکٹر عرفان احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے ڈنمارک کی وزارت انصاف اور وزارت خارجہ کے ساتھ ایک میٹنگ کال کی جس میں ہم ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ڈنمارک کے آئین میں نئے قوانین متعارف کروائیں جس سے مذہبی نسخوں کو نظر آتش کرنے کے مظاہروں پر پابندی لگائی جاسکے۔‘
’یہ مطالبہ ہم نے اس لیے کیا کیوں کہ 2017 میں ڈنمارک کے آئین سے مذہبی توہین کے قوانین ہٹا دیے گئے تھے جس کے بعد تواتر سے مذہبی نسخوں کو جلانے کے واقعات ہوئے۔ اسی وجہ سے ڈنمارک کے موجودہ قانون میں اس طرح کے مظاہروں پر پابندی لگانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب تک نئے قوانین متعارف نہیں کروائے جاتے یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔‘
’حکومتی نمائندوں نے ہمیں یقین دہانی کروائی کہ نئے قوانین پر کام جاری ہے اور وہ جلد ہی متعارف کروائے جائیں گے۔‘
ڈاکٹر عرفان نے مزید بتایا کہ ان دنوں ڈنمارک کی پارلیمان چھٹیوں پر ہے۔ اکتوبر کے پہلے منگل یعنی تین تاریخ کو پالیمانی عمل کا آغاز ہو گا۔ اس کے بعد ہی ڈنمارک کی وزارت انصاف اس معاملے پر غور شروع کرے گی۔
’ڈینش آئین کے مطابق پالیمانی امور کے آغاز کے کم سے کم تیس دن بعد ہی اس نئے قانون کو منظور کیا جا سکے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں یہ ہم اس معاملے پر قانون سازی دیکھ سکتے ہیں۔‘
’ڈیشن حکومت پر اس بار بہت بین الاقوامی دباؤ ہے جس کی وجہ سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی نیا قانون عمل میں آئے۔ تاہم اس دوران اگر دوبارہ سے قرآن یا دیگر مذہبی نسخوں کو نذر آتش کیا گیا تو ڈینش مسلم یونین کی جانب سے اس پر احتجاج ضرور کیا جائے گا۔’
‘آئینی اور بین الاقوامی قانون کے ماہر بیرسٹر علی طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرت ہوئے کہا کہ ’سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور اسے نذر آتش کرنے کی اجازت دینا مذہبی آزادی کے اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے آزادی اظہار کے قوانین نفرت انگیز مواد کو جو کسی مذہب کے خلاف تشدد یا نفرت کو ہوا دے، تحافظ فراہم نہیں کرتے۔ نیز مذہبی علامتوں کو جلانے کا عمل بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کے تحت ہونے والے جرائم سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔‘
حالیہ واقعات کے بعد ڈنمارک کی حکومت انتہائی دباؤ کا شکار ہے اور ان واقعات کی روک تھام کے لیے حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔
ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ "قرآن نذر آتش کرنے کے واقعات پر پابندی لازمی ہے۔
قرآن کو نذر آتش کرنا ناقابل دفاع اور توہین آمیز ہے۔ حکومت اسے ختم کرنے کے لیے تمام قانونی ذرائعے تلاش کرے گی۔‘
ڈنمارک کے سیاسی تجزیہ کار نوا ریڈنگٹن سمجھتے ہیں کہ ڈینش حکومت کا یہ فیصلہ ’تاریخی‘ ہے۔
’اس بار حکومت کی حکمت عملی بالکل ہی مختلف ہے۔ ماضی میں راسمس پلوڈن کے بنائے ہوئے خاکوں کے معاملے پر ڈنمارک نے کسی قسم کی ندامت ظاہر نہیں کی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈینش عوام پابندی کے حامی
ڈنمارک کی ایک مقبول ٹرینڈ سیٹنگ ریسرچ کنسلٹیشن نے حال ہی میں ایک سروے کروایا جس کے مطابق 51 فیصد مقامی افراد مذہبی نسخوں کو نذر آتش کرنے کے عمل پر پابندی کے حامی ہیں۔
اس ملک کے دوسرے بڑے شہر آرہس کے رہائشی، 22 سالہ الیگزینڈر کوفیڈ کے مطابق زیادہ تر ڈینز انتہائی سیکولر سوچ کے مالک ہیں لیکن مذہی علامتوں کی بے حرمتی کی حمایت نہیں کرتے۔ ’چند شدت پسند عناصر کے باعث ڈنمارک کے لوگوں کا دنیا میں ایک غلط تاثر پہنچتا ہے۔‘
کوپین ہیگن کے رہائشی 26 سالہ ڈینش مسلمان، سیمل متھایس نے، جنہوں نے 2020 میں اسلام قبول کیا قرآن نذر آتش کرنے کے واقعے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔
’ہمیں اس واقعے سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ ہم ڈینش، سویڈش یا ناروے کا پرچم نہیں جلاتے، تو پھر یہ مسلمانوں کی مقدس کتاب کو کیوں جلاتے ہیں؟‘
میرا شکوہ حکومت سے ہے کیونکہ لوگ جب ڈنمارک میں قرآن کو نذر آتش کرتے ہیں تو ناصرف اظہار رائے کا قانون ان کی حفاظت کرتا ہے بلکہ پولیس بھی انہیں تحافظ فراہم کرتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لیے دہرا معیار ہے۔ جب مسلمان ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں تو ان پر نفرت انگیز تقاریر کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ فلسطین کے لیے مظاہرے کریں تو انہیں پولیس بھی تحافظ پراہم کرنے سے منع کر دیتی ہے۔‘
یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عدم برداشت کا ایک پریشان کن مظاہرہ ہے۔ اس طرح کے اقدامات باہمی احترام اور افہام و تفہیم کو ختم کرتے ہیں اور خوف و دشمنی کا ماحول بنا کر کمیونٹی کو کئی حصوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ البتہ کسی بھی صورت میں یہ سکینڈنیویا کی اکثریت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتا، جو خوش آئند اور روادار ہیں۔‘
دیگر ممالک نے جن میں ایسٹونیا سے لے کر برطانیہ تک، سویڈن کے سفر کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ برطانیہ کے دفتر خارجہ نے ایک حالیہ اپڈیٹ میں کہا ہے: ’آپ کو اس وقت چوکنا رہنا چاہیے... دہشت گرد سویڈن میں حملے کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘