پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو ہفتے کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا۔
شاہ محمود کے پولیٹیکل اسسٹنٹ توصیف عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے صدر دفتر لے جایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے نے کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا تھا کہ شاہ محمود قریشی پیش ہوں اور انہیں سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ’ پارٹی موقف پریس کانفرنس میں بیان کرنے اور گذشتہ دنوں غیر ملکی سفیروں کے ناشتے کی دعوت میں شرکت کی سزا میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
پارٹی موقف پریس کانفرنس میں بیان کرنے اور گزشتہ دنوں غیر ملکی سفرا کے ناشتہ کی دعوت میں شرکت کی سزا میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ چاہتے ہے جیسے تیسے بھی پارٹی لیڈر شپ کو پابند سلاسل کرکے تمام آوازوں کو خاموش کردیا جائے۔
پاکستان کے آئین میں دیے گے… pic.twitter.com/aYcUAtNoCs— Farrukh Habib (@FarrukhHabibISF) August 19, 2023
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں کہا کہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی اس کیس میں نامزد ہیں اور انہیں جلد ہی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ’ہم نے قانون نافذ کیا ہے اور سائفر کیس میں نامزد تمام افراد کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘
جب سرفراز بگٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا پی ٹی آئی رہنما کی گرفتاری کی وجہ ان کی پریس کانفرنس تو نہیں، تو اس پر انہوں نے نفی میں جواب دیا۔
میڈیا پر گردش ہونے والی ایک ایف آئی آر کی کاپی سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ مقدمہ 15 اگست، 2023 کو سیکریٹری وزارت داخلہ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ریاستی مفادات کو خطرے میں ڈالا۔
ایف آئی آر کے مطابق ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ میں رجسٹر ایک انکوائری سے پتہ چلا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے دیگر ساتھی ایک خفیہ دستاویز (سائفر ٹیلی گرام) کو عام کرنے میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے ذاتی فائدے اور اپنے مفادات کی خاطر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جو ریاستی سکیورٹی کے مفادات میں نہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق ان لوگوں نے بنی گالہ میں بیٹھ کر سائفر کے متن کو غلط طور استعمال کرنے کی سازی رچی اور یہ کہ سائفر ٹیلی گرام اب بھی عمران خان کے قبضے میں ہے۔
شاہ محود قریشی کی پریس کانفرنس
گرفتاری سے قبل شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے 90 دنوں میں الیکشن یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’90 دن میں عام انتخابات نہ کروانا آئین کی خلاف ورزی ہو گی، ان کی جماعت الیکشن میں تاخیر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔‘
شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ’آئین میں انتخابات کے حوالے سے چیزیں بالکل واضح ہیں۔ آئین 90 دن میں انتخابات کا کہتا ہے، آئین مقدم ہے جس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کے نئی مردم شماری کی منظوری کے فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ڈی ایم سرکار سے تاریخی غفلت ہوئی ہے۔ اس نے ملک کو آئینی بحران میں دھکیل دیا۔ پی ڈی ایم کو بتانا چاہیے کہ اس تمام صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ عام انتخابات میں تاخیر سے سینیٹ انتخابات بھی متاثر ہوں گے۔‘
شاہ محمود قریشی کے بقول ’پی ڈی ایم سرکار نے تمام حقائق جانتے ہوئے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ یہی غفلت پنجاب اور کے پی کے انتخابات میں بھی کی گئی۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ انتخابات میں تاخیر سے بچا جا سکتا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جان بوجھ کر تاخیر کی گئی۔ اس سب میں مسلم لیگ ن کی نااہلی نظر آتی ہے۔ ںگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے آئینی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ کیا بروقت انتخابات آئینی ذمہ داری نہیں؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے تمام پارٹیاں متفق ہیں۔ پی ڈی ایم جماعتوں نے بھی انتخابات میں تاخیر کی مخالفت کی ہے جمعیت علمائے اسلام کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ آ ئین کے ساتھ ہے یا اس کی مخالف ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’پیپلزپارٹی کے موقف میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ پی پی پی کے سینیئر رہنماؤں نے بھی بروقت انتخابات اصرار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو اب واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ واضح کرچکی کہ نگران سیٹ اپ تقرر اور تبادلے بھی نہیں کرسکتا۔ سپریم کورٹ واضح کرچکی کہ نگران سیٹ اپ کا کام صرف انتخابات کرانا ہے۔ پی ڈی ایم کو نظر آچکا تھا کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔‘
انتخابی نشان کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’بلے کا نشان ہمارا حق اور پہچان ہے۔ ہم نے گذشتہ انتخابات بلے کے نشان پر لڑے۔ بلے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہائی ہیں تو ڈر کس بات کا؟ اگر ملک کو سدھارا ہے تو کیوں گھبراتے ہیں؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں اختلافات کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔ ایسی خبریں صرف ابہام پیدا کرنے کے لیے چلائی جارہی ہیں۔ کور کمیٹی میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ کور کمیٹی چئیرمین پی ٹی آئی کی امانت میں کبھی خیانت نہیں کرے گی۔
’تحریک انصاف متحد ہے اور رہے گی۔ اس حوالے سے خام خیالی جلد دور ہو جائے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی جلد باہر آئیں گے۔‘