یہ ہیں وجے کمار جو براہوی زبان میں گانا گا رہے ہیں، جنہوں نے یہ سوچ کر گانا شروع کیا تھا کہ اگر ان کو پہلے دس لوگ جانتے تھے تو اس گانے کے بعد دس ہزار جاننے لگے ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کلاسیکل گلوکار وجےکمار نے یہ فن سیکھنا سات سال کی عمر سے شروع کیا اور بعد میں وہ افغانستان سے آئے ہوئے افغان کلاسیکل گلوکارپائندہ محمد خان کے شاگرد بنے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں پائندہ محمد خان کا شاگر بنا تو باقاعدہ ایک رسم ہوتی ہے، میوزک میں کٹا بندی کی وہ کرائی گئی۔ پھر میں ان سےباقاعدہ یہ فن سیکھتا رہا۔
’یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ 2003 میں میرے استاد نے افغانستان واپس جانے کا فیصلہ کیا، اس کے بعد اب میں ان کے شاگر استاد عطااللہ خان سے مزید سیکھ رہا ہوں۔‘
وجے کمار کے بقول وہ بلوچستان کے پہلے نوجوان گلوکار ہیں جنہوں نے آل پاکستان کانفرنس میں صوبے کی نمائندگی کی۔ ان سے قبل کوئی بھی گلوکار اس میں شریک نہیں ہوا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے تہذیب فیسٹول میں شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے بتایا: ’کلاسیکل گلوکاری ایک بہت بڑا فن ہے، جس کو سیکھنے کے لیے پوری زندگی بھی لگا دی جائےتو بھی کم ہے۔ آج کے دور میں جو لوگ سیکھنے آتے ہیں ان کے پاس وقت ہی نہیں وہ اس میں صبر چاہیے جو ان میں نہیں ہے، لوگ شارٹ کٹ کے چکر میں ہوتے ہیں۔‘
وجے نے بتایا وہ پاسا ( پروفامنگ آرٹس سنگیت اکیڈمی )نام کی اکیڈمی بھی اپنی مددآپ کے تحت چلارہے ہیں، جہاں وہ دوچار لوگ ہی سیکھنے کےلیےآتے ہیں، لیکن کوئی خاص سیکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔
اس صورت حال میں کیا موسیقی ختم ہو رہی ہے، اس پر وجےکمار نے کہا کہ ’میوزک ایسی چیز ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہوتی، اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، لیکن وسائل اور بلوچستان میں مواقع نہ ہونے کے باعث اس کو فروغ نہیں مل رہا ہے، کیوں کہ یہاں ایسا ادارہ نہیں جہاں سے کوئی سیکھ سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جیسے سندھ میں ناپا اکیڈمی ہے، لاہور میں الحمرا اکیڈمی ہے، جہاں بڑے بڑے استاد لوگوں کو سکھا رہے ہیں اس طرح کے مواقع بلوچستان میں نہیں ہیں۔ جو اپنی مدد آپ کے تحت جتنا سیکھ سیکھتے ہیں سیکھ رہے ہیں۔ اگر حکومت کی سرپرستی میں ایسے ادارے بن جائیں تو کلاسیکل اور دوسرے میوزک کو بھی فروغ ملے گا، نئے لوگ بھی سامنے آئیں گے۔‘
وجے کمار کہتے ہیں: ’کلاسیکل میوزک کی زبان پوری دنیا میں ایک ہی ہے، اس میں ایک تو ’لے‘ اور دوسرا ’سر‘ یہ بہت ضروری ہیں اگر آپ کا سر کچا ہے تو آپ گا نہیں سکتے۔‘
وجے کمار ہندو مذہبی تہواروں اور مذہبی رسومات کے دوران بھی ان کے لیے بھجن بھی گاتے ہیں، اس کے ساتھ وہ مرد اور خواتین کو بھی کلاسیکل گانے کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔
تاہم ان کا شکوہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ سلسلہ چلانا مشکل ہو رہا ہے، کیوں کہ شاگر کم اور کرایے زیادہ ہونے کے باعث ان کے لیے اس کو مزید چلانا مشکل ہو رہا ہے۔
وجے کمار نے بتایا کہ انہوں نے کابل ریڈیو میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا، لاہور میں آل پاکستان کانفرنس میں شرکت کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق ’بلوچستان میں اکثر فوک گانے والے ہیں، کلاسیکل میوزک کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں صوبے سے باہر وہی نظر آتے ہیں، جو کلاسیکل گاتے ہیں، ان کو کوئی پذیرائی نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’لوگ میوزک سیکھنا چاہتے ہیں وہ آ بھی رہے ہیں، لیکن کوئی ایسا سرکاری ادارہ نہیں جہاں ان کو کم خرچ یا مفت میں سیکھنے کا موقع ملے اس لیے یہ لوگ بس خواہش کی حد تک محدود ہیں۔‘
وجے کمار نے بتایا کہ ’میری زندگی کا خاص واقعہ وہ تھا جب میں افغانستان میں ایک پروگرام میں شرکت کرنے گیا تو اس میں میرے استاد پائندہ محمد خان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسرے بھی بڑے بڑے استاد بیٹھے ہوئے تھے۔ جب میں گایا تو میرے استاد نے سب کےسامنے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک دن بہت بڑا گلوکار بنے گا۔ وہ دن میرے زندگی کا بہت اہم دن تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں بلوچستان کا باشندہ ہوں اوراس لیے میں نے ابتدا میں 2003 میں براہوی زبان میں پی ٹی وی میں گانا ریکارڈ کروایا تھا اس کے علاوہ میں بلوچی، پشتو، سرائیکی، سندھی، اردو، پنجابی، میں بھی گانے گاتا ہوں۔ بلوچی اور براہوی کو میں ترجیح دیتا ہوں کیوں یہ میری اپنے علاقے کی زبانیں ہیں۔‘
ان کے مطابق ’سوشل میڈیا کی وجہ سے میرے براہوی کے گانے کو بہت پسند کیا گیا اور اب مجھےزیادہ لوگ جاننے لگے ہیں۔‘