جنگلی حیات و نباتات پر کام کرنے والی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی جانب سے بدھ کو جاری ایک عالمی رپورٹ ' کووڈ-19: ارجنٹ کال ٹو پروٹیکٹ پیپل اینڈ انوائرمنٹ' میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں خوراک کے لیے گوشت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جنگلی حیات کے گوشت کو استعمال کرنے اور جانوروں کے قدرتی مسکن کو بگاڑنے کے باعث جنگلی جانوروں سے جنم لینے والی نئی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 'انسانوں کی جانب سے جنگلی جانوروں کا گوشت کھانے سے ہر سال لگ بھگ تین سے چارخطرناک بیماریاں انسانوں میں منتقل ہورہی ہیں اور اب یہ بیماریاں عالمی وبا بن کر سامنے آرہی ہیں، جن میں ایچ آئی وی ایڈز، سارس، برڈ فلو ماضی قریب کی چند مثالیں ہیں اور اب کرونا (کورونا) وائرس جیسی خطرناک عالمی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔'
رپورٹ کی آن لائن افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بابر خان نے کہا: 'جنگلی جانوروں کے گوشت کو انسانی خوراک کے طور پر استعمال کرنے کے رجحان کے بعد اس وقت عالمی طور پر ہر سال نو سے 23 ارب امریکی ڈالر مالیت کے جنگلی جانوروں کی خریدوفروخت ہورہی ہے۔ اس بیوپار کو عالمی سطح پر ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔'
کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے ماحول پر اثرات کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بابر خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے آغاز میں کراچی ساحل پر پورٹ قاسم سے متصل علاقے میں بڑے پیمانے پر تمر کے جنگلات کو کاٹا گیا مگر بعد میں اس کٹائی کو روک دیا گیا، جبکہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا، جہاں تمر کے جنگلات کی اکثریت ہے، وہاں لاک ڈاؤن کے دوران تمر کے جنگلات کی کٹائی میں واضح کمی دیکھی گئی۔
دوسری جانب ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے کرونا لاک ڈاؤ ن کے ماحول پر اثرات کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 'لاہور سمیت پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں، جہاں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی، وہاں لاک ڈاؤن کے بعد فضا کئی یورپی شہروں سے بھی بہتر ہوگئی ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاک ڈاؤن کے دوران ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے اداروں کے اہلکار غاعب تھے۔ اس دوران جنگلی حیات کو پکڑنے، ان کا شکار کرنے اور درختوں کی بے دریغ کٹائی دیکھی گئی، اس حوالے سے سوال کے جواب میں حماد نقی خان نے کہا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کو اس دوران پیش آنے والے جن واقعات کی معلومات ملی، انہیں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کرنے کے ساتھ متعلقہ سرکاری اداروں کو بھی مطلع کیا جاتا رہا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق: 'اگر ماحول کا تحفظ نہیں کیا گیا تو جنگلی حیات سے پھیلنے والی یہ بیماریاں مستقبل میں بنی نوع انسان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گی، جس سے انسانی صحت تباہ ہونےکے ساتھ ساتھ معیشتوں اور عالمی تحفظ کے شدید متاثر ہونےکا بھی امکان ہے۔ نوول کرونا وائرس کووڈ 19 کی وبا دنیا بھر میں انسانی زندگیوں کے خاتمے اور عالمی معیشتوں پر تباہ کن اثرات کی ایک تازہ مثال ہے۔ اس وبا کے باعث عالمی معیشت کو آٹھ اعشاریہ آٹھ ٹریلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ دنیا بھرکے نصف سے زائد ملازمین کی نوکریاں ختم ہوگئی ہیں، جس سے معاشرے میں منفی اثرات سامنے آئے۔'
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 'انسانوں کی جانب سے خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، جنگلات کو کاٹنے کے ساتھ جنگلی جانوروں کے قدرتی مسکن کو زراعت یا کاشتکاری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کے باعث انسانوں کا جنگلی جانوروں سے رابطہ بڑھ رہا ہے جو جانوروں سے وائرس انسانوں میں منتقل ہونے کی ایک اور وجہ ہے اور اب کرونا جیسی عالمی وبا اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ ماحولیاتی مسائل اور صحت سے جڑے مسائل اور ان کے حل کے لیے کئی پہلوؤں کو سمجھنے اور انہیں مضبوط کرنےکی ضرورت ہے۔'
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے رپورٹ میں دنیا کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسان اور ماحول کے تحفظ کے لیے ایک نیا معاہدہ کرنےکا عہد کریں تاکہ ایسا قابل اعتماد اقدام یقینی بنایاجائے جو حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو کم کرنے کا آغاز کرے اور قدرت کی بحالی کی جانب ایک راہ ہموار کرے جو2030 تک انسانوں اور خطہ ارض کے لیے مفید ثابت ہو۔'
رپورٹ میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے صنعتوں سے بھی مطالبہ کیا کہ عالمی وبا کے بحران کے دوران اور بعد میں رضاکارانہ طور پر کیے گئے ماحولیاتی اقدامات نافذالعمل کرکے انہیں مضبوط بنایاجائے اور ایسے معیاری اقدامات کیے جائیں جو جنگلی حیات کی بطور انسانی خوراک کی فراہمی کو کم کرسکے۔ اسی طرح خوراک کے معیاری طریقہ کار کو فروغ دے کر خریداروں کو بہترین غذائی انتخاب کی طرف راغب کیا جائے۔'