سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق ابتدائی رپورٹ درخواست گزار سیموئل پیارا کو دینے کی ہدایت کی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جڑانوالہ میں مسیحی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات اور اقیلتوں کے حقوق سے متعلق مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران واقعے سے متعلق ابتدائی رپورٹ درخواست گزار سیموئل پیارا کو دینے کی ہدایت کی ہے۔
مقدمے کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ جڑانوالہ واقعے کے مقدمے کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق اور عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق دیگر درخواستوں کو یکجا کر کے سن رہی ہے۔
سماعت کے دوران سیموئل پیارے نے کہا ’جڑانوالہ سانحے کے بعد نفرت انگیز تقاریر بھی ہو رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کوئٹہ دھماکہ کیس میں کہا تھا کہ ہمیں عیسائی نہیں لکھا جائے گا، اب بھی ہمیں عیسائی لکھا جا رہا ہے۔ ایک مذہبی جماعت کے ساتھ معاہدے کی روشنی میں اب ہماری بستیوں میں گشت کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کوئی مذہب کی توہین تو نہیں کر رہا۔‘
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ ’ڈپٹی کمشنر سرگودھا کے مذہبی جماعت سے اس معاہدے کو بھی طلب کیا جائے جو بڑا عجیب معاہدہ ہے۔‘
جمعے کو سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے واقعے پر جے آئی ٹی سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
اقلیتی رہنما سیموئل پیارا نے جڑانوالہ واقعے پر نوٹس لینے کے لیے متفرق درخواست دائر کی تھی۔
سماعت کے دوران ہی بابا گرونانک ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین سردار بشنا سنگھ روسٹرم پر آئے تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کی درخواست میں ایک معاملہ سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ کا اٹھایا گیا ہے جبکہ دوسرا معاملہ گوردواروں کی تزئین و آرائش اور مرمت نہ ہونے سے متعلق ہے۔
سردار بشنا سنگھ نے کہا کہ ’ہمارے کچھ لوگ 1947 میں اپنا وطن چھوڑ کر ہندوستان گئے اور ہم یہیں پاکستان میں رہے۔ ہمارے مذہب کا آغاز بھی یہاں سے ہوا تھا۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم سکھ ہیں اس لیے ہمارے خلاف کچھ غلط کیا جا رہا ہے لیکن قبضہ گروپ مندر، مسجد، یا گوردوارہ کچھ نہیں دیکھتا۔‘
سردار بشنا سنگھ نے لاہور سمیت ملک بھر میں گوردواروں کی تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کیں۔
عدالت نے ریاست کو سکھ برادری کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ہدایت کی جبکہ انسپیکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا سے حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
دوسری جانب تمام آئی جیز کو رپورٹس پیش کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور تمام ایڈوکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں۔
کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مبینہ توہین مذہب کے ردعمل میں 16 اگست کو ہونے والی ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے دوران گرجا گھروں اور مسیحی کمیونٹی کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی گئی تھی، جس میں ملوث ہونے کے الزام میں دو مسیحی نوجوانوں سمیت درجنوں افراد اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔
اس واقعے کے خلاف گذشتہ ماہ 18 اگست کو وائس آف کرسچن انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر برائے انسانی حقوق سیموئل پیارا نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ ’وہ جڑانوالہ میں پیش آنے والے المناک واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے، جس کے دوران 20 گرجا گھروں اور درجنوں گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔‘
درخواست گزار کا مزید کہا گیا کہ ’وہ 16 اگست کے وحشیانہ واقعے کو ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں متعدد گرجا گھروں، مقدس بائبل اور علاقے میں مسیحی آبادی کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔‘
سپریم کورٹ نے 22 اگست کو اس کیس کی سماعت مقرر کی تھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کرنا تھی لیکن ہیومن رائٹس سیل کو سانحہ جڑانوالہ کیس کی پولیس رپورٹ نہ ملنے کے باعث اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔
جڑانوالہ واقعے کے حوالے سے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور کہہ چکے ہیں کہ اس میں ملوث تمام ملزمان اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں، جنہیں قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی۔