پاکستان میں پچھلے 10 دن میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 36 روپے کی کمی ہوئی ہے جبکہ انٹر بینک میں سات روپے کی کمی واقع ہوئی۔
نگران حکومت کی جانب سے ڈالر کی سمگلنگ روکنے اور غیر قانونی منی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
ڈالر کی قدر میں کمی کے حوالے سے حال ہی میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا تھا کہ ’ہم نے سٹے بازی، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کو روکا ہے، جس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔‘
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ڈالر کی قدر میں مزید کمی ہو گی؟ اور اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ جس کے جواب میں ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت اس لیے بڑھی کیونکہ روپے پر کوئی اعتبار نہیں کر رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’بلومبرگ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قدر 250 روپے تک ہونی چاہیے۔ انڈیا میں ڈالر 78 روپے، بنگلہ دیش میں 95 ٹکا اور افغانستان، جہاں معاشی پابندیاں ہیں، وہاں 82 افغانی کے قریب ہے۔‘
ان کے مطابق: ’پاکستان میں روپے پر کوئی اعتبار نہیں کر رہا تھا، اس لیے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا۔ آسان طریقے سے منافع حاصل کرنے کے لیے لوگ ڈالر خرید رہے تھے۔‘
ملک بوستان کے مطابق ڈالر کی قدر میں اضافے کی اصل وجہ ’سمگلنگ‘ ہے اور اگر اس کو ’جڑ سے ختم نہ کیا گیا‘ تو ’ڈالر کی قدر میں کمی اور اضافے کی آںکھ مچولی لگی رہے گی کیوں کہ ڈیمانڈ اپنی جگہ پر موجود ہے۔‘
انہوں بتایا کہ افغانستان سے جو چیزیں آتی ہیں اس کے بدلے ڈالرز لے کر جاتے ہیں، اس لیے افغانستان کے ساتھ لوکل لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کو کھولنا پڑے گا تا کہ ڈیمانڈ کم ہو، کیونکہ ’دو سے ڈھائی ارب ڈالرز اس ملک (افغانستان) میں چلے جاتے ہیں۔‘
دوسری جانب ماہر معاشیات اور کریڈٹ بک فنانشل سروسز کے سی ای او عمار حبیب کہتے ہیں کہ ڈالر کے ریٹ کو روکا نہیں جا سکتا۔ ’ ڈالر کی ڈیمانڈ اگر زیادہ ہو گئی تو ڈالر کی قدر میں اضافہ ہی ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر میں مزید کمی کی گنجائش نہیں کیوں کہ معاشی حالات زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ ’ڈالر کی قدر میں اضافہ ہی ہو گا۔‘
عمار حبیب نے بتایا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ غیر فطری تھا، جو سمگلنگ روکنے سے نیچے آیا مگر اس سے اب مزید کمی نہیں ہو گی۔
کیا منی ایکسچینج کمپنیاں بند ہوں گی؟
پاکستان کے مرکزی بینک نے گذشتہ ہفتے فاریکس مارکیٹ میں اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے بڑے بینکوں کو حکم دیا تھا کہ وہ عوامی سطح پر زرمبادلہ کے لین دین کے لیے علیحدہ ایکسچینجز قائم کریں۔
سٹیٹ بینک نے اپنی پریس ریلیز میں کہا تھا کہ مختلف قسم کی موجودہ ایکسچینج کمپنیوں اور ان کی فرنچائزز کو مربوط کرتے ہوئے متعین مینڈیٹ کے ساتھ ایکسچینج کمپنیوں کے زمرے میں تبدیل کیا جائے گا۔
پریس ریلیز کے مطابق اس کے علاوہ ایکسچینج کمپنیوں کے لیے کم از کم سرمائے کی حد 20 کروڑ روپے سے بڑھا کر 50 کروڑ روپے کر دی جائے گی۔
مرکزی بینک کے ان اقدامات کے بعد ایکسچینج کمپنیوں کے مستقبل پر سوالات کھڑے ہو گئے تھے۔
اس حوالے سے ملک بوستان نے بتایا کہ منی ایکسچینج کمپنیاں بند نہیں ہو رہیں اور اس حوالے سے میٹنگ بھی ہوئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں ایکسچینج کمپنیاں ہیں اور سات سو ارب ڈالرز ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آتے جاتے ہیں۔‘
جبکہ ماہر معاشیات عمار حبیب کا کہنا تھا کہ ’منی ایکسچینج کمپنیوں کو بند کرنے کی نہیں، انہیں ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، سٹیٹ بینک ان کا ریگولیٹر ہے اور اگر وہ صحیح کام کرے تو ایسے مسائل نہ ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سٹیٹ بینک اب بینکوں کو کہہ رہا ہے کہ کاؤنٹر کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کرے تو اس سے چیزیں مزید بہتر ہو جائیں گی۔‘
اس حوالے سے ماہر معاشیات خاقان نجیب سے بھی بات کی گئی، جن کا کہنا تھا کہ گرے مارکیٹ میں ڈالر کے کاروبار کے خلاف انتظامی ایکشن لیا گیا، جس کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی۔ اس ایکشن کو جاری رکھنا ہو گا تا کہ اسے برقرار رکھا جائے۔