مشرق وسطیٰ کو دفاعی برآمدات: پاکستانی مارکیٹنگ کی ناکامی

پاکستان نے خلیجی ریاستوں کی مسلح افواج کی ترقی میں تعاون کیا ہے، مگر وہ ان ملکوں کو دفاعی ساز و سامان برآمد کرنے کے میدان میں کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔

16 نومبر 2022 کو کراچی کے ایکسپو سینٹر میں بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2022 کے دوران فوجی حکام پاکستان کے جے ایف 17 تھنڈر طیارے کو دیکھ رہے ہیں (رضوان تبسم / اے ایف پی)

پاکستان نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ مضبوط سیاسی اور سٹریٹیجک تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ چونکہ یہ روایتی طور پر ان ریاستوں کا ایک قابل اعتماد اتحادی رہا ہے، اس لیے یہ شراکت داری سیاسی اور ثقافتی تعلقات سے بالاتر ہو کر دفاعی شعبے میں ظاہر ہوئی ہے۔

خلیج کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کے ایک پہلو میں ایران عراق جنگ کے دوران سعودی عرب میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی شامل تھی، جبکہ پاکستانی اہلکاروں نے دیگر عرب خلیجی ریاستوں کی مسلح افواج میں بھی خدمات انجام دیں۔ 

ان پاکستانیوں نے ان ریاستوں بالخصوص متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کی مسلح افواج کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح پاکستان خلیج عرب کی سلامتی کا اہم جز رہا ہے اور کم از کم پیشہ ورانہ تربیت یافتہ اور قابل بھروسہ فوجی افرادی قوت فراہم کرنے کے معاملے میں اس نے اپنے آپ کو متعلقہ بنائے رکھا۔ 

تاہم چونکہ پاکستان کے پاس ایک ترقی یافتہ دفاعی صنعتی کمپلیکس نہیں تھا، اس لیے یہ ان شراکت دار ریاستوں کو دفاعی برآمدات کے لیے بڑی منڈیوں میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔ بدقسمتی سے، پاکستان کا سکیورٹی سٹیٹ کرافٹ کبھی بھی اپنے اتحادیوں کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے تربیت یافتہ فوجی فراہم کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکا، اس لیے رفتہ رفتہ اس شعبے میں اس کی ضرورت ختم ہوتی چلی گئی۔  

پاکستان کی دفاعی برآمدات کے حوالے سے اعداد و شمار مکمل تصویر پیش نہیں کرتے کیونکہ بعض اوقات بعض دفاعی سودے خفیہ ہوتے ہیں اور سرکاری دستاویزات میں ظاہر نہیں ہوتے۔ 

تاہم یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ وسیع تر مشرق وسطیٰ کو پاکستان کی جانب سے دفاعی سازوسامان کی برآمد ابھی ابتدائی دور میں ہے۔ 2016  میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری نے 8.1 کروڑ ڈالر کے آرڈرز حاصل کیے تھے اور سعودی عرب پاکستان سے اسلحہ اور گولہ بارود کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ 2019  میں یہ اطلاع ملی تھی کہ پاکستان 21 کروڑ ڈالر کا اسلحہ برآمد کر رہا ہے۔ 

یہ اعداد و شمار اب بھی ہمیں مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر عرب خلیجی ریاستوں کے لیے پاکستان کے اسلحے کی برآمد کے حوالے سے حقیقی تصویر پیش نہیں کرتے، جو کہ اس طرح کی فروخت کے لیے بہت بڑی منڈی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دہائی پہلے یہ بات قابل فہم تھی کیونکہ پاکستان خود ہتھیاروں کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتا رہا اور اس کی دفاعی صنعتیں پختگی کی اس سطح پر نہیں پہنچی تھیں، جہاں وہ پیچیدہ ہتھیاروں کے نظام اور پلیٹ فارم تیار کر سکیں۔ 

تاہم پچھلی دہائی میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ چین کی چینگڈو ایئر کرافٹ کارپوریشن کے تعاون سے پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس نے جے ایف17 لڑاکا طیارے کی کامیاب پیداوار شروع کر دی ہے۔ پاکستان نے یہ طیارے نائیجیریا اور میانمار کو بھی برآمد کیے ہیں جبکہ ارجنٹائن، آذربائیجان اور عراق نے جیٹ کے بلاک III ورژن میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جو ایکٹو الیکٹرانک سکینڈ ارے (AESA) ریڈار سے لیس ہے۔

پاکستانی فیصلہ ساز جو خلیجی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ذاتی تعلقات برقرار رکھتے ہیں اور ملک کو اہم مالی مدد دلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہ مقامی طور پر تیار کردہ دفاعی پلیٹ فارمز کو ان ممالک میں بھی متعارف کروانے کے لیے کوشش کر سکتے تھے۔ اس سے نہ صرف دفاعی صنعت کی تحقیق اور ترقی کی صلاحیت کو بڑھاتے ہوئے بہت زیادہ مطلوبہ آمدنی حاصل ہوتی بلکہ خلیج کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ایک نئے سٹریٹجک پہلو کا آغاز ہوتا۔ اس طرح خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی فضا میں پاکستان کو مزید اہمیت ملتی۔

حال ہی میں ایک نئی تنظیم سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) بنائی گئی ہے، جس کا مقصد عرب خلیجی ریاستوں سے دفاعی پیداوار سمیت کئی راستوں میں سرمایہ کاری اور تعاون کو تیز کرنا ہے۔ 

اگر پاکستان کے فیصلہ سازوں نے ہمیشہ ہی سے اس مقصد کو خلیجی شراکت داروں کے ساتھ اپنی سفارت کاری کا کلیدی مقصد بنایا ہوتا تو نئے ریگولیٹری اداروں کے قیام کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ 

یہاں مسئلہ ڈھانچہ جاتی ہے اور جب تک پاکستان کے اقتدار کے حاملین اپنے موجودہ سٹیٹ کرافٹ ماڈل کو تبدیل نہیں کرتے، ملک خطے کے اہم شراکت داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ غیر متعلق ہوتا چلا جائے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

عمر کریم برمنگھم یونیورسٹی میں محقق ہیں۔ ان کی تحقیق کے موضوعات سعودی عرب کے سٹریٹجک نقطہ نظر کے ارتقا، سعودی ایران کشمکش، شام میں تنازع اور ترکی، ایران اور پاکستان کی جغرافیائی سیاست ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر