ملتان میں واقع بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے معطل وائس چانسلر (وی سی) پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے رکشہ چلانے کی اپنی ویڈیو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے رکشہ علامتی طور پر چلایا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے 15 ستمبر کو یوٹیوب پر اپنی ایک ویڈیو شیئر کی، جو بعدازاں وائرل ہوگئی۔ اس ویڈیو میں وہ ہاتھ میں چھڑی اٹھائے ایک رکشے والے کے پاس آ کر سلام دعا کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ’میں بھی سوچ رہا ہوں کہ رکشہ چلاؤں۔‘
ویڈیو میں انہیں رکشے والے سے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی سے پینشن تو ملتی نہیں، بطور وائس چانسلر ملازمت بھی ختم ہونے والی ہے، اب مہنگائی ہے، لہذا میں آپ کا رکشہ چلاؤں گا۔
پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی سے 22ویں گریڈ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہوں نے 1979 سے لے کر 2015 تک اس یونیورسٹی میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ وہ گومل یونیورسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں جبکہ ستمبر 2019 میں انہوں نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے وائس چانسلر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا۔
تاہم رواں برس فروری میں سپریم کورٹ نے پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے رجسٹرار کو ان کے عہدے سے معطل کر دیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی سے منسلک لا کالجز سے ملی بھگت کے ساتھ ایل ایل بی میں جعلی داخلے دیے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو آئندہ سماعت پر کیس کی تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی تھی اور سات ماہ گزر جانے کے بعد بھی کیس کی سماعت نہیں ہو سکی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس وائرل ویڈیو کے معاملے پر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ رکشہ چلانے کا عمل معاشی مشکلات کے شکار لوگوں کے ساتھ ان کی یکجہتی کی علامت تھا۔
بقول نے ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی: ’میں نے رکشہ نہیں چلانا۔ میں تو 22 گریڈ سے ریٹائر ہوا ہوں، پی ایچ ڈی ہوں، میں تو کہیں پڑھا بھی سکتا ہوں لیکن میرا رکشہ چلانے کا عمل ایک یکجہتی کی علامت تھا، ان لوگوں کے ساتھ جو اس وقت معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر برا وقت آجائے تو رکشہ چلانا کوئی بری بات تو نہیں ہے، یہ رزق حلال ہے۔‘
انہوں نے ملک کے معاشی حالات اور مہنگائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’بہت گھٹن ہو چکی ہے۔ ہر مہینے کے بعد پیٹرول کی قیمت بڑھ جاتی ہے، اس مہینے میں ہی 50 روپے کا اضافہ ہو گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ نگران سیٹ اپ آیا ہے تو انہیں کچھ سکون ملے گا لیکن اب لوگ نا امید ہوگئے ہیں۔ غریب آدمی کا کیا حشر ہوتا ہے جب پیٹرول مہنگا ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر منصور نے بتایا کہ انہوں نے یہ ویڈیو اپنے یو ٹیوب چینل کے لیے بنائی تھی لیکن وہ ہِٹ ہوگئی۔
’بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ جتنا اوپر جاتے ہیں، ان کی گردن میں سریا آجاتا ہے۔ کسی ملک کے معلم کا ایک کردار ہونا چاہیے، اس لیے میں نے یہ کام کیا۔ میں ایک دو دن تو رکشہ ضرور چلاؤں گا، اس میں کوئی حرج نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معطلی کے حوالے سے سوال پر ڈاکٹر منصور اکبر نے کہا کہ انہیں ’ناکردہ گناہوں کی سزا‘ ملی ہے۔ ’سپریم کورٹ نے مجھے سات ماہ سے معطل کیا ہوا ہے، اگرچہ مجھے تنخواہ ملتی ہے، بنگلہ ہے اور دیگر مراعات بھی ملتی ہیں۔‘
ڈاکٹر منصور اکبر 26 ستمبر کو وائس چانسلر کے عہدے سے اسی معطلی کے ساتھ ریٹائر ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا: ’مجھ پر جو کیس بنا وہ میرے آنے سے پہلے کا تھا لیکن کسی نے نہیں پوچھا۔ جج نے لکھا کہ وی سی اور رجسٹرار معطل ہیں اور ہم نے حکم پر عمل کرتے ہوئے کام چھوڑ دیا۔‘
اس حوالے سے یونیورسٹی کے موجودہ رجسٹرار زبیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ڈاکٹر منصور پر کرپشن کا نہیں بلکہ غفلت کا الزام تھا۔ عدالتوں میں چونکہ گرمی کی چھٹیاں تھیں، اس لیے کیس نہیں لگا البتہ یونیورسٹی انتظامیہ اس کیس کی پیروی کر رہی ہے اور امید ہے کہ جلد اس کی سماعت ہوگی۔‘
پروفیسر ڈاکٹر منصور کنڈی اور ان کی ویڈیو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک زندہ دل آدمی ہیں اور یونیورسٹی میں ان کا رویہ دوستانہ تھا۔ یہ ویڈیو انہوں نے صرف ایک مثال دینے کے لیے بنائی ہے۔‘
ڈاکٹر منصور کنڈی نے بتایا کہ وہ 69 برس کے ہو چکے ہیں۔ ’میں نے ساڑھے 64 برس کی عمر میں بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے درخواست دی اور وائس چانسلر بن گیا۔ پھر مجھ پر کیس بن گیا۔‘
پروفیسر ڈاکٹر منصور کنڈی نے آخر میں نوجوانوں کے لیے بھی پیغام دیا اور کہا کہ ’نوجوان اپنی صحت کا خیال کریں اور غلط تعلیم حاصل نہ کریں کیونکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ڈگری تو لیڈز یونیورسٹی کی ہوتی ہے لیکن اندر سے اس تعلیم نے انہیں کچھ نہیں سکھایا ہوتا۔ نوجوان ملک سے محبت کریں، علم سے محبت کریں اور اپنی جمہوری اقدار سے محبت کریں۔‘