جاپان: رکشہ کھینچنے والی خاتون جو 10 لاکھ ین ماہانہ کماتی ہیں

جاپان میں رکشہ کھینچنے والے ماہانہ 10 لاکھ ین سے زیادہ کما سکتے ہیں جو ملک کی اوسط ماہانہ اجرت سے تین گنا زیادہ ہے۔

ٹوکیو کی سڑکوں پر جانے سے قبل اپنے رکشے کو آہستگی اور احتیاط سے چلاتی ہوئی مقامی خاتون یوکا اکیموٹو سیاحوں کو اپنے رکشے پر جاپان کے سیاحتی مقامات میں سے ایک ضلع آساکوسا کی سیر کراتی ہیں۔

موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں ہانپتے ہوئے ان کے چہرے پر پسینہ بہہ رہا ہے۔

اکیموٹو ٹوکیو میں رکشہ چلانے والی مٹھی بھر خواتین میں سے ایک ہیں جو سیاحوں کو نہ صرف سواری کے لیے لے جاتی ہیں بلکہ مقامی ثقافت کو سمجھنے میں بھی ان کی مدد کرتی ہیں۔

یہ روایتی طور پر مردوں کا پیشہ رہا ہے لیکن اب سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں معلومات سامنے آنے کے بعد  رکشے چلانے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

درحقیقت ٹوکیو رکشہ کے 90 فیصد رکشہ چلانے والے ملازمین میں سے تقریباً 30 فیصد خواتین ہیں۔ ان میں اکیموٹو کے آجر اور ٹوکیو کے مرکزی شہر آساکوسا میں رکشہ چلانے والے کئی ادارے شامل ہیں۔

22 سالہ اکیموٹو کو ٹوکیو ڈزنی لینڈ میں ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی لیکن کرونا وبا نے ان منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ تاہم انہوں نے ’تھیم پارک‘ کی ملازمت کے لیے آن لائن تلاش شروع کی اور اس طرح انہیں رکشہ چلانے کے بارے میں پتہ چلا۔

ایک بار رکشہ کرایے پر لینے کے بعد انہوں نے چار ماہ کی سخت تربیت لی جس میں یہ سیکھنا بھی شامل تھا کہ سواری کے ساتھ ممکنہ 250 کلوگرام وزنی رکشہ کس طرح کھینچنا ہے۔

اکیموٹو نے اس بارے میں بتایا: ’مجھے کھیلوں میں کوئی تجربہ نہیں ہے اس لیے شروع میں رکشہ کھینچنا میرے لیے بہت مشکل کام تھا۔ پہلے تو میں نے کئی بار رکشہ گرانے جیسی بہت سی غلطیاں کیں لیکن میں ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔‘

لیکن اب دو سال بعد انہیں ایک تجربہ کار رکشہ کھینچنے والی خاتون ہونے پر فخر ہے۔ اکیموٹو کے لیے سب سے بڑا چیلنج خواتین کے حوالے سے موجود دقیانوسی تصور کو توڑنا ہے۔

ان کے مطابق: ’جو لوگ دوسری جگہوں سے یہاں آتے ہیں وہ اکثر مجھے ایسے دیکھتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں اوہ کیا یہ لڑکی رکشہ کھینچ رہی ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ’رکشہ گرل‘ کے نام سے حال ہی میں آساکوسا میں مقبولیت حاصل کرنے والی اکیموٹو کا کہنا ہے اپنی پروفائل کو مزید اچھا کرنا چاہتی ہیں اور لوگوں کو بتانا چاہتی ہیں کہ لڑکیاں رکشہ چلانے والے کے طور پر بھی کام کر سکتی ہیں۔

روایتی موزے پہن کر اکیموٹو اور ان کے ساتھی ہر طرح کے شدید موسم میں دن میں اوسطاً 20 کلومیٹر سفر کرتے ہیں۔ جسمانی مضبوطی کے علاوہ، رکشہ چلانے والوں کو شہر کی مصروف سڑکوں پر محفوظ طریقے سے گزرنے کے بارے میں بھی معلومات ہونی چاہیں۔

اسی لیے اس ملازمت کے لیے درخواست دینے والوں میں سے محض 10 فیصد سے بھی کم لوگ اس کام کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔

اس کے باوجود ٹوکیو رکشہ فرمز میں خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جن کی تعداد پچھلے چار سالوں میں چار سے بڑھ کر 25 تک جا پہنچی ہے۔

اپنے مرد ہم منصبوں کی طرح رکشے کھینچنے والی خواتین اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں، بیرون ملک سے بھی دوبارہ سواری لینے کی ذاتی طور پر بھی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔

جاپان میں رکشہ کھینچنے والے ماہانہ 10 لاکھ ین سے زیادہ کما سکتے ہیں جو ملک کی اوسط ماہانہ اجرت سے تین گنا زیادہ ہے۔

رکشہ کھینچنے کی تربیت لینے والی 20 سالہ لڑکی یومیکا ساکورائی نے کہا کہ ’ایک سال قبل جس (رکشہ) ڈرائیور کے ساتھ میں سوار ہوئی تھی اس نے مجھے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی پوسٹ کرتے ہیں اور جب میں نے ان پوسٹس کو چیک کیا تو میں نے بہت سی ایسی ویڈیوز دیکھیں جو خواتین کو سخت تربیت دے کر رکشہ ڈرائیور بنا رہی ہیں۔‘

ان کے بقول: ’اس نے مجھے اعتماد دیا کہ اگر میں سخت محنت کروں تو میں یہ کر سکتی ہوں اور اسی طرح میں نے اس نوکری کے لیے درخواست دی۔‘

ٹوکیو رکشہ ایسوسی ایشن کے صدر ریوتا نشیو کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کو ملازمت دینے کی وجہ ایک ایسا ماحول بنانا بھی ہے جہاں خواتین صارفین کے لیے سواری کرنا آسان ہو۔

انہوں نے مزید بتایا: ’اب ہمارے پاس تقریباً 25 خواتین ڈرائیورز ہیں اور ہمیں یہ تعداد مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ فی الحال ہمارے پاس 90 ڈرائیورز ہیں جن میں خواتین کی تعداد نصف سے بھی کم ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین