غزہ پر آتش و آہن کی بارش ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے اس صورت حال میں انٹر نیشنل لا کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے؟
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل چار کی روشنی میں غزہ کے محصورین کی حیثیت Protected persons کی سی ہے۔ جنیوا کنونشن کے مطابق جو لوگ کسی جنگ، قبضے یا تنازعے کے دوران خود کو کسی ایسی قوت کے رحم و کرم پر پائیں، جس کے وہ شہری نہ ہوں تو انہیں Protected persons کہا جائے گا۔
جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 میں کسی بھی آبادی کو ’اجتماعی سزا‘ اور اس سے ملتے جلتے خوف زدہ کر دینے والے اقدامات کی اجازت نہیں ہے۔ جب کہ اسرائیل اس وقت غزہ میں ’اجتماعی سزا‘ کے فارمولے کے تحت شہریوں پر گولہ باری اور فضائی حملے کر رہا ہے۔
جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 20 کے مطابق Protected persons کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی ممانعت ہے اور یہی اصول 1874 میں برسلز کانفرنس میں بھی وضع کیا جا چکا ہے۔
جنیوا کنونشن کے آرٹیکل دو کے مطابق بھی انتقامی کارروائیوں کی اجازت نہیں۔
کسی بھی عام شہری کو کسی بھی دوسرے آدمی کے کسی فعل پر سزا نہیں دی جا سکتی اور اگر دی جائے گی تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ جنیوا کنونشن نے اسے ’جنگی جرم‘ قرار دے رکھا ہے۔
جنیوا کنونشن سے پہلے ایسے اقدامات کی کوئی ممانعت نہ تھی۔
برطانیہ نے جنوبی افریقہ کے خلاف جنگ میں اور جرمنی نے جنگ عظیم اول میں اس طرح کے غیر انسانی حملوں کی یہی توجیح پیش کی تھی کہ قانون انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے۔
چنانچہ اسی قتل و غارت کو دیکھتے ہوئے جنیوا کنونشن میں آئندہ کے لیے اس کی ممانعت کر دی گئی۔
اسرائیل غزہ میں تاریخ کے پہیے کو ایک بار پھر الٹا چلا رہا ہے اور بنی نوع انسان کے شعور اجتماعی کی اس توہین میں عالمی قوتیں اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول کے آرٹیکل 17 کے مطابق مقامی آبادی کے لیے لازم ہو گا کہ وہ زخمیوں کی دیکھ بھال کرے اور ان کے خلاف اس وجہ سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
اسرائیل نے غزہ میں ہسپتالوں پر بھی حملے کیے ہیں اور وہ مریضوں سمیت ملبہ بن گئے ہیں جب کہ سول آبادی کے تحفظ سے متعلقہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 16 کے مطابق زخمی اور بیمار خصوصی عزت کے مستحق ہیں۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار ہسپتالوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اسرائیل اس کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔
سوال ہے کہ ایسی صورت حال میں انٹر نیشنل لا کیا رہنمائی کرتا ہے؟
جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول ون کے آرٹیکل 52 کی ذیلی دفعہ تین میں اس کا جواب موجود ہے۔
لکھا ہے کہ: ’اس شک کی صورت میں کہ آیا کوئی جگہ جو بالعموم سویلین مقاصد کے لیے وقف ہو، کسی فوجی کارروائی میں موثر معاونت کے لیے استعمال ہو رہی ہے یا نہیں تو یہ تصور کیا جائے گا کہ و ہ اس طرح استعمال نہیں ہو رہی۔‘
سینٹ پیٹرز برگ ڈیکلئریشن 1868 کے مطابق واحد قانونی ٹارگٹ دشمن کی ملٹری فورس کو کمزور کرنا ہے۔ سویلین پر حملہ جائز نہیں ہو گا۔
یہی بات جنیوا کنونشن ایڈیشنل پروٹوکول ون کے آرٹیکل 52 کی ذیلی دفعہ دو میں بھی کہی گئی ہے۔
حقوق انسانی کے عالمی اعلامیے ( یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس) کے آرٹیکل تین کے مطابق ہر کسی کو زندگی، آزادی اور جان کی سلامتی کا حق حاصل ہے۔ یہی بات یورپین کنونشن کے آرٹیکل دو میں بھی موجود ہے۔
یہ حق ظاہر ہے غزہ کے ان مقتول بچوں کو بھی حاصل تھا جن کے منہ سے ماں کے دودھ کی خوشبو بھی ابھی جدا نہیں ہوئی تھی۔
اسی طرح ہیگ رُولز آف ایئر وارفیئر کے آرٹیکل 22 کے مطابق شہری آبادی کو خوف زدہ کرنے یا نجی املاک کو تباہ کرنے کے لیے جن کی نوعیت عسکری نہ ہو بمباری کرنا ممنوع ہے۔
ہیگ کنونشن IV کے آرٹیکل 25 کے مطابق کسی بھی ذریعے سے قصبوں، دیہاتوں اور رہائشی مقامات پر حملہ یا بمباری منع ہے۔
ہیگ II ( 29 جولائی 1899) کے آرٹیکل 25 کے مطابق بھی قصبوں، دیہاتوں، رہائشی مقامات پر حملہ یا بمباری منع ہے۔
لیگ آف نیشنز نے 30 ستمبر 1938 کو ایک متفقہ قرارداد میں قرار دیا تھا کہ شہری آبادی پر حملہ غیر قانونی ہے۔
کسٹمری انٹر نیشنل لا سب سے طاقتور اصولوں کا مجموعہ ہے اور چاہے کوئی ملک ان کی توثیق کرے یا نہ کرے، ان کی پابندی سب پر لازم ہے۔ کسٹمری انٹر نیشنل لا کے چند اصول ایسے ہیں جو ہر وقت ہر تنازعے میں خود بخود لاگو سمجھے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق حملوں کا نشانہ صرف عسکری ٹارگٹ ہو سکتا ہے، شہری آبادی پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق رکھنا لازمی ہے، شہریوں کی املاک تباہ نہیں کی جا سکتیں، بلا امتیاز حملے نہیں کیے جا سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آٹھ اگست 1945 کو امریکہ، برطانیہ، فرانس، شمالی آئر لینڈ اور سوویت سوشلسٹ ری پبلک حکومتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں تشکیل شدہ انٹر نیشنل ملٹری ٹریبونل نے جنگی جرائم کی وضاحت کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ کسٹمری انٹر نیشنل لا کی خلاف ورزی بھی جنگی جرم تصور ہو گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ مقبوضہ فلسطین کے علاقے اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں۔ سلامتی کونسل نے 22 نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 منظور کی، جس میں اسرائیل کو مقبوضہ علاقے خالی کرنے کا کہا گیا۔
مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور اسے وہاں سے نکل جانے کا کہا گیا۔
اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ کوئی ایک ووٹ بھی مخالفت میں آیا نہ ہی کوئی ملک ووٹنگ سے غیر حاضر رہا۔ امریکہ نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
خود اسرائیل نے اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس سمیت کوئی بھی مقبوضہ علاقہ خالی نہیں کیا۔
معاہدہ پیرس کے تحت، امریکہ اور فرانس کی سربراہی میں 1928 میں یہ طے ہو چکا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک پر قبضہ کر کے اسے اپنا ملک قرار نہیں دے سکتا۔
یہی بات جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 کو قرارداد نمبر 2253 میں بھی طے کی گئی اور اسرائیل سے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کا کہا گیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 22 نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 منظور کی جس میں اسرائیل کو مقبوضہ علاقے خالی کرنے کا کہا گیا۔
جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181، 194، 2252 اور سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242،672 اور 2334 اس قبضے کو ناجائز قرار دے چکی ہیں۔
یعنی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ فلسطینیوں نے اسرائیل میں کارروائی نہیں کی بلکہ مقبوضہ فلسطین میں کی ہے، جو اسرائیل کا حصہ نہیں اور جس پر اسرائیل نے بہت بعد میں ناجائز طور پر قبضہ کیا ہے۔
فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے وہاں اسرائیلی کالونیاں قائم کرنا بھی غیر قانونی ہے۔
ہیگ ریزولوشن کے تحت یہ ناجائز ہے اور انٹر نیشنل کرمنل کورٹ اور روم سٹیچوٹ کے مطابق یہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔
اس سب کے باوجود اگر اسرائیل مقبوضہ فلسطین کے علاقے خالی نہیں کرتا تو سوال یہ ہے کہ انٹر نیشنل لا فلسطینیوں کو کیا حق دیتا ہے؟
جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 37/ 43 میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔
اس قرارداد میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا فلسطینیوں کو اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی اجازت ہے یا نہیں اور پھر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ اجازت انہیں حاصل ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔