فلسطینی خاتون فدا خشک لکڑیاں جمع کرتی ہیں۔ وہ ان لکڑیوں کو غزہ شہر کے جنوب میں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے کیمپ میں اپنے خیمے کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ پھر وہ ان لکڑیوں کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر انہیں سلگاتی ہیں تاکہ عرب پکوان شکشوکہ تیار کر سکیں جو ان کے دو دن سے بھوکے بچے کھائیں گے۔
جب ماں کھانا تیار کر رہی تھیں تو ان کی توجہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کی پانی تقسیم کرنے والی گاڑی نے اپنی طرف مبذول کروائی اور انہوں نے فوری طور پر کھانا پکانا بند کر دیا۔ انہوں نے پلاسٹک کے کین اٹھائے اور پانی لینے والوں کی قطار میں کھڑی ہو گئیں۔ پانی کے لیے مشقت اٹھانے والے ان فلسطینی پناہ گزینوں کو بہت کم مقدار میں پانی ملتا ہے۔
پناہ حاصل کرنے میں ناکامی
پانچ افراد پر مشتمل خاندان کی سربراہ فدا کو وسطی غزہ شہر کے علاقے تل الہوا میں اس وقت بےگھر کر دیا گیا جب اسرائیلی فوج نے غزہ میں اپنے فوجی آپریشن کے حصے کے طور پر لوگوں کو فوری طور پر گھر خالی کرنے کا حکم دیا اور علاقے کے مکینوں پر جبری نقل مکانی مسلط کر دی۔
فدا کے خیمے میں رہائش اختیار کرنے سے پہلے وہ پانچ دن تک کھلے میدان میں رہیں۔ وہ رات کو ٹھنڈی زمین پر سوتیں۔ ان کے سر پر آسمان کی چھت تھی کیوں کہ وہ لوگوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے یو این آر ڈبلیو اے کے سکولوں میں پناہ لینے میں ناکام رہی تھیں۔ ان سکولوں کو بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
فدا کی حالت یہ تھی کہ ان کے اور ان کے اہل خانہ کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔ یہی حال غزہ سے تعلق رکھنے والے 11 لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ہے۔ ان سب لوگوں نے اسرائیلی طیاروں کی تباہ کن بمباری کے خوف سے اپنا گھر خالی کر دیا اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں جنوب کی جانب چلے گئے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے سکولوں میں چھ لاکھ بےگھر افراد آباد مقیم ہیں لیکن ان میں سے کچھ تعلیمی مراکز اسرائیلی فوج کے میزائلوں کی زد میں آ گئے۔
بے گھر ہونے والے افراد کا ایک اور حصہ کھلے آسمان تلے رہا اور ان میں سے کچھ نے اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی۔ نقل مکانی کی اس حالت اور پناہ گاہوں کی کمی کے پیش نظر اقوام متحدہ کے امدادی ادارے نے اپنی زمین پر اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ایک کیمپ قائم کیا پیشہ ورانہ تربیتی مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا۔
پناہ گزین کیمپ
یو این آر ڈبلیو اے نے اپنے پہلے کیمپ میں تقریباً ڈھائی سو خیمے لگائے جن میں تقریباً پانچ ہزار بے گھر افراد نے پناہ لی۔ اس منظر نے غزہ کے رہائشیوں کے ذہنوں میں 1948 کے نکبہ کے دوران فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی یاد تازہ کردی جب وہ ان خیموں میں رہتے تھے جو بعد میں نکبہ کی علامت بن گئے۔
یو این آر ڈبلیو اے کے میڈیا ایڈوائزر عدنان ابو حسنہ نے کیمپ کے بارے میں کہا کہ ’ہزاروں خاندانوں نے اپنے تمام ارکان کے ساتھ اس جگہ پر پناہ لے رکھی ہے اور بے گھر افراد کے لیے یہ نیا کیمپ بے گھر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے سکولوں میں جمع ہونے کے پیش نظر قائم کیا گیا جو پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ غزہ میں اپنی نوعیت کا پہلا کیمپ ہے جس میں غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والے بےگھر افراد مقیم ہیں۔‘
عدنان ابو حسنہ کے مطابق: ’بےگھر افراد کو یو این آر ڈبلیو کی طرف سے بہت کم امداد دی جاتی ہے۔ انہیں صحت کی کوئی سہولت حاصل نہیں اور کیمپ میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بےگھر ہونے والے لوگوں کو کم مقدار میں پانی اور خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ انہیں سونے کے لیے گدوں کی تعداد بھی کم ہے جب کہ یہ سامان بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اس کیمپ میں انسانی زندگی کی ضروریات موجود نہیں۔ بیت الخلا اور حفظان صحت کی سہولیات کا فقدان ہے اور تقریباً ان پانچ لوگوں کے لیے طبی سہولیات اور خوراک کافی نہیں ہیں جو خیموں کو اپنی پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔
پناہ گزین کیمپوں میں زندگی
کیمپ میں لگے خیموں کے درمیان حبہ نامی بچی اس کھلونے سے کھیلنے کی کوشش میں مصروف ہیں جسے وہ گھر سے ساتھ لائیں۔ ان کی والدہ جن کا نام سہام ہے، کہتی ہیں کہ ’ہم اپنے گھر کے کھنڈرات میں واپس جانا چاہتے ہیں تاکہ اپنی فیملی کے ساتھ اس پر خیمہ نصب کر سکیں اور اس کیمپ سے دور اس میں رہ سکیں۔ میرے لیے یہ آسان ہوتا کہ میں اپنے گھر کے ملبے تلے دب کے مر جاؤں جس پر بمباری کی گئی بجائے اس کے کہ ان حالات میں زندہ رہوں اور بے گھر ہو جاؤں۔‘
بے گھر لوگوں کے کیمپ میں لگے ایک خیمے کے اندر اپنے بچوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک قریبی فضائی حملے کی آواز سنائی دیتی ہے اور دھواں آسمان میں اٹھتا ہے جب کہ خوف زدہ بچے زور زور سے چیخنے لگتے لیکن سہام کا کہنا ہے کہ ’ہم خونریز اسرائیلی حملوں کی آوازیں سننے کے عادی ہیں۔‘
تکلیف اٹھانے کے بعد سہام اپنے خاندان کے کپڑے دھونے، واش روم میں استعمال، پینے اور کھانا بنانے کے لیے کچھ لیٹر پانی ذخیرہ کرنے میں کامیاب رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اختلافات
بے گھر افراد کے اس کیمپ نے غزہ کے رہائشیوں میں عدم اطمینان پیدا کیا جنہوں نے دیکھا کہ اس کا مطلب ایک نئی تباہی ہے جس کا فلسطینیوں کو ایک بار پھر سامنا کرنا پڑے گا۔
متعلقہ سرکاری ادارے نے غزہ کی پٹی میں اس کیمپ کے قیام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس عمل کے خطرات سے متنبہ کیا تھا۔
سرکاری میڈیا آفس کی سربراہ سلاما معروف کا کہنا تھا کہ ’یو این آر ڈبلیو اے نے اسرائیل کے ان احکامات کو قبول کر لیا ہے جن کے تحت فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے کیا کیا اور ہم ایک بڑے کیمپ کے قیام پر حیران تھے اور بے گھر ہونے والوں کو وہاں سہولتوں کے بغیر چھوڑ دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ یو این آر ڈبلیو اے کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے کیمپ قائم کرے جو غزہ میں مارے گئے یا وہ لوگ جن کا گلا کاٹا گیا یا ان افراد کے لیے جو بے گھر ہونے کے بعد اس کیمپ میں نقل مکانی کر سکیں۔ اس ادارے کو جو کام تفویض کیے گئے ہیں وہ ان بے گھر افراد کو تحفظ فراہم کرنے سمیت روزی روٹی کی تمام ضروریات فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے گھروں یا ان کے قریبی علاقوں میں رہیں اور اسرائیل حکم پر عمل نہ کریں۔
معروف نے وضاحت کی کہ یو این آر ڈبلیو اے نے ’غزہ شہر میں اپنی ذمہ داریاں چھوڑ دیں اور اسرائیلی فوج کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے چل پڑا حالاںکہ اسے اپنی خدمات پر واپس جانا ہے اور شمالی غزہ اور پٹی کے دیگر علاقوں میں اپنی ذمہ داری سنبھالنی ہے اس وقت تک کہ جب یہ ثابت نہ ہو جائے کہ وہ فلسطینیوں کے مفادات کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔‘
لیکن یو این آر ڈبلیو اے کے ترجمان ابو حسنہ نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بے گھر ہونے والوں کو محفوظ اور مناسب پناہ فراہم کرنے کے لیے کام کر رے ہیں اور بے گھر افراد کو غزہ لائے جانے کی صورت میں انہیں خوراک اور امداد فراہم کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ ’اور اقوام متحدہ کے اداروں نے ایسے کسی منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا جو انتہائی ذمہ دار ہو۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ عریبیہ