پرانی بات ہے، میں اپنے دوست کے ساتھ اندرون شہر لاہور میں گھوم رہا تھا، ہم کسی کا مکان تلاش کر رہے تھے، گلیاں اس قدر پر پیچ تھیں کہ ہم بار بار گھوم کر ایک ہی جگہ پہنچ جاتے تھے۔
اسی تلاش کے دوران میں نے ایک جگہ اشارہ کیا کہ شاید ہمیں وہاں سے بائیں جانب مڑنا ہے، میرے دوست نے اس جگہ نظر دوڑائی اور پھر کہا کہ نہیں، یہاں سے ہم پہلے ہی ہو کر آ چکے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے یاد ہے۔ اس پر وہ اطمینان سے بولا کہ اِس گلی کی نکڑ پر میں نے بورڈ لگا دیکھا تھا ’نان ٹکی 10 روپے میں‘ اس لیے مجھے پتا ہے۔
یہ بات مجھے آج تک نہیں بھولی کیونکہ میرا دوست خاصا خوش خوراک آدمی ہے، بھلے وقتوں میں اس کا وزن 150 کلو ہوا کرتا تھا، آج کل شدید ڈائٹنگ پر ہے جس کی وجہ سے اس کا وزن گھٹ کر 148 کلو اور آٹھ سو گرام ہو چکا ہے مگر اب بھی اس کی نظر ہمیشہ کھانے پینے کی چیزوں پر رہتی ہے۔
اس روز بھی یہی ہوا تھا، اسی کی نظر نان ٹکی والے بورڈ پر پڑی تھی جبکہ میرا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا تھا حالانکہ میں بھی اپنے تئیں کھانے پینے کا شوقین ہوں، تاہم اس وقت میرا فوکس مکان تلاش کرنے پر تھا جبکہ موصوف کا ریڈار ہمیشہ کی طرح کھانے کی اشیا پر ہی فِکس تھا۔
اشفاق احمد مرحوم بڑی پتے کی بات کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے کسی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ انارکلی بازار میں جا رہے ہوں اور یکدم آپ وہاں سونے کا سکہ اچھالیں اور وہ چھن کی آواز کے ساتھ زمین پر گرے تو دس لوگ مڑ کر دیکھیں گے کیونکہ ان کے کان، دما غ اور ذہن پیسے کی آواز کے ساتھ ٹیون ہوں گے۔
اس مثال سے انہوں نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انسان اپنا دھیان جس جانب لگا لیتا ہے لامحالہ اس کو نتیجہ بھی وہیں سے ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب کوئی صوفی بزرگ ہمیں کہتا ہے کہ اللہ سے لو لگاؤ یا اس سے محبت کرو تو ہم ہونقوں کی طرح پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا، ہمیں تو نہیں معلوم کہ اللہ کہاں رہتا ہے، ہمیں کیسے اس سے دعا مانگنی ہے، کیسے من کی بات کرنی ہے جبکہ کسی لڑکی کا معاملہ ہو تو ہم دو دن میں معلوم کر لیتے ہیں کہ وہ کہاں رہتی ہے، اس کا فون نمبر کیا ہے، وہ کون سی خوشبو پسند کرتی ہے، کس طرح کا پراندہ پہنتی ہے، کالج کیسے آتی جاتی ہے۔
اس وقت ہمیں یہ تمام باتیں کسی بزرگ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، اس وقت وہ لڑکی خود بخود ہمارے ریڈار پر آجاتی ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ذہن اس لڑکی کے علاوہ کوئی بات نہیں سوچ رہا ہوتا، ہمارے دل و دماغ کا فوکس صرف وہ لڑکی ہی ہوتی ہے، اور یوں ہماری تمام تر توانائی اور صلاحیت صرف اِس بات پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ کسی طریقے سے اس لڑکی کی قربت حاصل کر لی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبکہ خدا کے معاملے میں ہم اپنے ذہن کو فوکس ہی نہیں کر پاتے اور یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ اللہ تو کسی ایسے شخص کے ذہن میں نہیں آتا جہاں کوئی اور رہتا ہو، وہ تو مالک ہے، اس کے لیے تو گھر خالی کرنا پڑتا ہے، صاف صفائی کروانی پڑتی ہے، پھر کہیں جا کر ہم اس کی آس امید لگا سکتے ہیں۔
میں معذرت چاہتا ہوں کہ بات خواہ مخواہ تصوف کی طرف نکل گئی حالانکہ میرا اللہ جانتا ہے کہ یہ مضمون لکھتے ہوئے مجھے شدید بھوک لگ رہی ہے اور میں اِس وقت نان ٹکی کو بھی من و سلوٰی سمجھ کر کھا سکتا ہوں۔
میں نے شروع میں اپنے جس دوست کا ذکر کیا اس کا دھیان چونکہ کھانے پینے کی طرف رہتا ہے اِس لیے اس کے پاس تازہ ترین معلومات ہوتی ہیں کہ شہر میں لذیذ دال چاول کہاں سے ملتے ہیں یا اچھے نان چنے کھڑے کھڑے کہاں سے کھائے جا سکتے ہیں۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میرے دوست کی طرح ہماری قوم کا فوکس بھی ایک ہی چیز کی طرف ہے اور وہ ہے ’پیسے کہاں سے آسکتے ہیں‘۔
آپ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، روزانہ یہی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ سعودی عرب ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر دے گا، چین سے دو ارب ڈالر آجائیں گے، امریکہ نے اب تک کچھ نہیں دیا، ایران ہمیں کیا دے سکتا ہے۔۔۔؟
بدقسمتی سے پوری قوم کا فوکس اسی ایک بات کی جانب ہو گیا ہے کہ کون سا ملک ہمیں کتنے پیسے دے سکتا ہے۔ غیرت اور حمیت کی رہی سہی کسر آئی ایم ایف نے پوری کر دی ہے۔ اب تو بچے بچے کو پتا ہے کہ ہمارے خزانے میں کتنے ارب ڈالر ہیں، کتنا قرضہ ہے، آئی ایم ایف نے کتنے ڈالر دینے ہیں اور باقی دوست ممالک سے کیسے اکٹھے کرنے ہیں۔
جب پوری ریاست کا فوکس ہی اِس بات پر ہو تو پھر اِس خبر پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ عمرے کے ویزے پر سعودی عرب جانے والے دو سو بھکاریوں کو ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا، اِن بھکاریوں کا ٹریول ایجنٹ سے معاہدہ ہوا تھا کہ بھیک کی رقم آدھی آدھی تقسیم کی جائے گی۔ یہ ہوتی ہے قوم، یہ ہوتا ہے ویژن!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔