جماعت اسلامی نے اتوار کو اسلام آباد کی اتاترک ایونیو پر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کے حق میں ’غزہ مارچ‘ کا انعقاد کیا جس میں بڑی تعداد میں مرد، خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔
مارچ آبپارہ چوک سے شروع ہوا اور اتاترک ایونیو پر پہنچا، جہاں پر سٹیج لگایا گیا تھا۔
اس موقعے پر شرکا نے فلسطین کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ کچھ بینرز اور پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے، جن پر فلسطین کے حق میں نعرے درج تھے۔
اتاترک ایونیو کرسیوں سے بھری ہوئی تھی جہاں مظاہرین پہنچے تو کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں تھی۔
کچھ بچوں نے فلسطین کے جھنڈے کے رنگوں سے مزین لباس پہن رکھے تھے جبکہ کچھ نے چہرے پر فلسطین کا پرچم بنوا رکھا تھا۔
بعد میں جماعت اسلامی کے قائدین نے وہاں موجود شرکا سے خطاب بھی کیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مارچ سے خطاب میں شرکا کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جماعت اسلامی نے امریکی سفارت خانہ کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا تو امریکی نائب سفیر کا پاکستانی حکام کو فون آیا۔
سراج الحق کے مطابق امریکی سمجھتے تھے کہ ہم سفارت خانہ کو نقصان پہنچائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ روز مارچ کی تیاریاں کرنے والے کارکنوں پر اسلام آباد انتظامیہ نے طاقت کا استعمال کیا، لاٹھیاں برسائیں اور ہمارے پوسٹرز شاہراہوں سے اتارے گئے۔
انہوں نے سوال کیا کہ یہ سب کچھ کسے خوش کرنے کے لیے کیا گیا؟
’پاکستان کی حکومت سے پوچھتا ہوں کہ ہمارے کارکنان پر جب لاٹھیاں برسا جارہی تھیں عین اسی وقت طیب اردوغان ترکی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہزاروں کے مجمعے کو لیڈ کر رہے تھے۔‘
انہوں نے 19 نومبر کو لاہور میں اگلے ملین مارچ کا بھی اعلان کیا۔
اس سے قبل جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ان کے تمام گرفتار کارکنان اور رہنماؤں کو گذشتہ شب اسلام آباد پولیس نے رہا کر دیا۔ تاہم اتوار کو ’غزہ مارچ‘ اب جلسے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق ہفتے کو جماعت اسلامی نے الزام لگایا تھا کہ اسے اتوار کو اسلام آباد میں غزہ کے حق میں ریلی کی تیاریوں سے روک دیا گیا۔
ترجمان جماعت اسلامی راشد اولکھ نے ہفتے کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ اتوار کو بڑا مارچ کرنا چاہتے تھے جس کے انتظامات کے لیے جماعت کے ضلعی امیر اور کارکنوں نے تیاریوں کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ پنڈال میں کرسیاں اور دیگر سامان لے کر پہنچے تو انتظامیہ نے دھاوا بول دیا۔
تاہم ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن نے بتایا کہ انتظامیہ نے جماعت اسلامی کو ریلی کے انعقاد کی اجازت نہیں دی۔
راشد اولکھ نے کہا: ’پولیس نے جماعت اسلامی کے ضلعی امیر نصراللہ رندھاوا، نائب امیر طاہر فاروق، کاشف چوہدری اور 10 سے زیادہ کارکنان کو غیر قانونی طور پر گرفتار کر لیا اور نہ صرف ہمارا کیمپ اکھاڑ دیا گیا بلکہ سامان ضبط کر کے پولیس ساتھ لے گئی۔‘
انہوں نے پولیس کی مبینہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’جماعت اسلامی غزہ کے ساتھ بطور پاکستانی کھڑی ہونے والی واحد جماعت ہے اور اسرائیل کے ظلم اور فسطائیت پر مسلسل آواز اٹھا رہی ہے۔‘
اسلام آباد پولیس نے اس معاملے پر کہا کہ کسی سیاسی تنظیم یا کسی دوسرے کو شہر میں سڑک اور راستے بند کرنے کی اجازت نہیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس تقی جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے بیان میں کہا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے شہر میں جلسے جلوس کی اجازت نہیں اور پر امن احتجاج کا انعقاد باقاعدہ اجازت کے بعد ممکن ہے۔
اسلام آباد پولیس نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں کہا: ’سری نگر ہائی وے بین الصوبائی رابطہ شاہراہ ہے، راستے مسدود کرنے سے عوام کےلیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ پر امن احتجاج کے لیے مروجہ طریقہ اختیار کریں اور پولیس سے رابطہ کریں۔‘
سری نگر ہائی وے بند کرنے پر کچھ افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
سری نگر ہائی وے بین الصوبائی رابطہ شاہراہ ہے راستے مسدود کرنے سے عوام کےلیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
پر امن احتجاج کے لیے مروجہ طریقہ اختیار کریں اور پولیس سے رابطہ رکھیں۔ اسلام آباد میں آمدورفت کے تمام راستے…— Islamabad Police (@ICT_Police) October 28, 2023