فرانس میں افریقی ماسک 28 لاکھ فیصد منافع پر فروخت کر کے ایک جوڑے کو دھوکہ دینے کے الزام میں ایک شخص کو مقدمے کا سامنا ہے۔
پیرس کے جنوب مغرب میں واقع ایور ایٹ لوئر کے رہائشی ایک نامعلوم پنشنر جوڑے نے یہ نایاب ماسک ڈیلر کو 150 یورو (130 پاؤنڈ) میں فروخت کیا جس نے اسے 42 لاکھ یورو (37 لاکھ پاؤنڈ) میں فروخت کیا۔
منگل کو جب فرانسیسی جوڑے کی جانب سے لایا گیا مقدمہ چلا تو ڈیلر بھی عدالت میں پیش ہوا۔
لیکن گبون حکومت اور مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ نایاب نوادرات کو اس کے اصل ملک واپس کر دیا جانا چاہیے۔
19 ویں صدی کا نایاب ’نگل‘ ماسک جو گبون کے فینگ لوگوں نے بنایا تھا، جنوبی فرانس کے شہر گارڈ میں واقع اس جوڑے کے ہالی ڈے ہوم کے اوپر والے کمرے میں مٹی میں پڑا ہوا تھا۔ جوڑے نے جب گھر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے ڈیلر کو فون کیا۔
لکڑی کا ماسک گھر کی ایک الماری سے ملا جو اس شخص کے دادا رینے وکٹر فورنیئر کا تھا، جو 20ویں صدی کے اوائل میں افریقہ میں نوآبادیاتی منتظم تھے۔
ڈیلر نے جوڑے سے لکڑی کا ماسک سمیت کئی چیزیں خریدیں۔
چھ ماہ بعد اس جوڑے کو ایک اخبار پڑھتے ہوئے پتہ چلا کہ یہ ماسک مونٹپیلیئر میں تھا اور یہ لیونارڈو ڈا ونچی کی پینٹنگ سے بھی زیادہ نایاب ہے۔
جوڑے کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اس تصویر کو پہچانا تو وہ ’اپنی کرسیوں سے تقریبا گر گئے‘ اور نیلامی کی فہرست میں کہا گیا کہ یہ تصویر 1917 کے آس پاس فرانسیسی نوآبادیاتی گورنر رینے وکٹر ایڈورڈ مورس فورنیئر (1873-1931) نے نامعلوم حالات میں جمع کی تھی۔
اس دریافت سے آرٹ بیوپاریوں اور میڈیا میں جوش و خروش پیدا ہو گیا اور ایک ماہر نے ایک فرانسیسی ٹی وی کو بتایا کہ فینگ ماسٹرز نے ایسے صرف 10 ماسک تیار کیے تھے۔
ماہرین کا کہنا تھا: ’اس قسم کا ماسک لیونارڈو ڈا ونچی کی پینٹنگ سے بھی نایاب ہے، ہم عظیم ماسٹر کی 22 پینٹنگز کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن ہمیں گبون میں مختلف فینگ ماسٹرز کی جانب سے بنائے گئے صرف 10 سے 12 ماسکوں کا علم ہے۔‘
مارچ 2022 میں ہونے والی نیلامی میں اس ماسک کی ابتدائی قیمت دو لاکھ 60 ہزار پاؤنڈ تھی اور بعد میں ایک نامعلوم شخص نے ٹیلی فون پر اسے 37 لاکھ پاؤنڈ میں خریدا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں جوڑے نے غیر منصفانہ قیمت دینے پر ڈیلر کے خلاف دیوانی مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ فروخت منسوخ کی جائے۔
ایلس کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران جوڑے کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ جوڑے کو فروخت سے حاصل ہونے والا منافع منصفانہ طور پر ملنا چاہیے کیونکہ انہوں نے نادانستہ طور پر اسے 130 پاؤنڈ میں فروخت کیا تھا۔
ان کے وکیل فریڈرک مانسات جعفری نے اس ماہ فرانسیسی اخبارات کو بتایا، ’نیک نیتی اور ایمانداری ہونی چاہیے۔ میرے موکل اس قیمت پر اس ماسک کو کبھی نہ فروخت کرتے اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ ایک انتہائی نایاب چیز ہے۔‘
تاہم گبون حکومت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ماسک چوری ہوا تھا اور اسے واپس کیا جانا چاہیے۔
کلیکٹیف گبون آکسیٹانی سے وابستہ سولنگے بیزاؤ نے کہا: ’یہ ماسک نوآبادیات کے وقت چوری ہوا تھا ... یہ تمام فن پارے – اور بہت سے جو ہم عجائب گھروں میں دیکھتے ہیں – لے لیے گئے، اور جن لوگوں نے انہیں بنایا ان سے کہا گیا کہ یہ شیطانی کام ہیں اور اس کے بجائے انہیں بائبل پر یقین کرنا چاہیے۔ اور اس کے بعد سے، یہ نوادرات یورپ میں نمودار ہوئے اور ان لوگوں کو مالا مال کر رہے ہیں جنہوں نے دہائیوں تک ان سے پیسہ کمایا۔
’اس ماسک کی روح ہے، اس کا استعمال ہمارے گاؤوں میں انصاف قائم کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ عدالت میں بحث اخلاقیات کے بارے میں رہی ہے، لیکن آرٹ کے کاموں کی اخلاقیات اور ہمارے وقار کا کیا؟ اس میں اخلاقیات کہاں ہے؟‘
عدالت کا فیصلہ دسمبر میں متوقع ہے۔
© The Independent