عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتیں کیا تیاریاں کر رہی ہیں؟

تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے زیادہ متحرک مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان دکھائی دیتی ہیں۔

لاہور میں 21 اکتوبر، 2023 کو نواز شریف کی واپسی پر مسلم لیگ ن کے حق میں بینرز آویزاں ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اتنخابات کی مجوزہ تاریخ تو سامنے آئی ہے مگر باقاعدہ انتخابی شیڈول کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم اب سیاسی جماعتیں متحرک ہونا شروع ہوگئی ہیں، جن میں سے بظاہر سب سے زیادہ متحرک ن لیگ ہی دکھائی دیتی ہے۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے قومی وصوبائی حلقوں کے لیے جنرل نشستوں اور مخصوص سیٹوں کے خواہش مند امیدواروں کے لیے فارم بھی جاری کر دیے اور درخواستیں بھی طلب کر لیں۔

دوسرے نمبر پر نئی بننے والی جماعت استحکام پاکستان پارٹی نظر آتی ہے، جس نے نو دسمبر تک نو اضلاع میں جلسوں کا شیڈول جاری کر رکھا ہے۔

اس نئی جماعت نے انتخابی نشان ’عقاب‘ کا انتخاب کیا ہے اور اب الیکٹ ایبلز کی شمولیتیں بھی جاری ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کے مطابق پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے ہی پنجاب میں نہ ہونے والے انتخابات کے لیے درخواستیں لے لی تھیں۔ اب قومی اسمبلی کے امیدواروں سے بھی وصول کی جا رہی ہیں۔

لیکن سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ ترجمان پی ٹی آئی روف حسن کے مطابق: ’پارٹی نے انتخابات سے متعلق حکمت عملی تیار کر رکھی ہے جو جلد کارکنوں کے سامنے لائی جائے گی۔‘

اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، تحریک لبیک و دیگر بھی اپنے طور پر انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے زیادہ متحرک مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان دکھائی دیتی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو ہی اسٹیبلشمنٹ سے ہم آہنگی زیادہ ہونے پر اقتدار حاصل کرنے کا یقین ہے۔ کیونکہ خیبر پختونخوا میں بننے والی نئی جماعت تحریک انصاف پارلیمینٹرین سمیت کوئی اور سیاسی جماعت اتنی زیادہ بظاہر پرجوش دکھائی نہیں دے رہی۔

سیاسی جماعتوں کی انتخابی حکمت عملی

مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری جماعت پہلے سے انتخابات کی تیاری میں مصروف رہی لیکن ہمارے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کی زیر صدارت اجلاس میں تیاریوں کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم نے پارلیمانی بورڈ، منشور کمیٹی بنانے سمیت ٹکٹوں کے لیے درخواستیں بھی طلب کر لی ہیں۔ پارٹی قیادت نے ابتدائی حکمت عملی بھی تیار کر لی ہے ہر حلقے میں ہمارے مضبوط امیدوار موجود ہیں۔ مینار پاکستان جلسے کے بعد عوامی رابطہ مہم بھی شروع ہوچکی ہے۔‘

ن لیگ کی جانب سے تمام نشستوں کے لیے امیدواروں کو درخواست فارم جاری کر دیے گئے ہیں اور 10 نومبر تک جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ درخواست فارم میں تحریر کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی جنرل اور مخصوص نشست پر درخواست فارم کے ساتھ دو لاکھ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ایک لاکھ روپے کا بینک ڈرافٹ لگانا لازمی ہوگا۔

استحکام پاکستان پارٹی نے بھی عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے۔

جماعت کی جانب سے نو دسمبر تک جلسوں کا شیڈول بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق پہلے مرحلے میں نو اضلاع میں جلسے ہوں گے۔

شیڈول کے مطابق تین نومبر کو حافظ آباد اور نو نومبر کو نارووال میں میدان سجے گا جبکہ 12 نومبر لیہ اور 17 نومبر کو قصور میں 20 نومبر کو گجرانوالہ، 24 کو جھنگ، دو دسمبر ساہیوال اور نو دسمبر کو فیصل آباد میں جلسے ہوں گے۔

استحکام پاکستان پارٹی کیونکہ تحریک انصاف کے سابق رہنماؤں نے ہی بنائی ہے اس لیے تحریک انصاف چھوڑ کر نو مئی کی مذمت کے بعد بیشتر رہنما اسی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب سپریم کورٹ نے پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا ہم نے اسی وقت صوبائی امیدواروں سے ٹکٹ کے لیے درخواستیں لے لی تھیں۔ انہیں درخواستوں کو اب قابل قبول سمجھا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی اور دیگر صوبوں کے لیے بھی درخواستیں لی جارہی ہیں۔ سیاسی حکمت عملی کے ساتھ ہم نے انتخابی پلان بھی ترتیب دے دیا ہے۔‘

چوہدری منظور کے بقول، ’اگرچے ہمیں سیاسی طور پر تحفظات ہیں لیکن ہم الیکشن لڑنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔ حلقوں میں ہمارے پاس مضبوط امیدوار بھی ہیں اور الیکشن لڑنے کا تجربہ بھی ہے۔ ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔‘

گذشتہ عام انتخابات 2013 اور 2018 میں سیاسی منظر نامے پر سب سے متحرک نظر آنے والی تحریک انصاف کی البتہ بظاہر کوئی حیران کن تیاری دکھائی نہیں دیتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

البتہ ترجمان پی ٹی آئی روف حسن کہتے ہیں کہ ان کی بھی مکمل تیاری ہے۔ ’اگرچہ قیادت اور کئی رہنما گرفتار ہیں مگر پھر بھی کارکنوں کو جلد آئندہ انتخابات سے متعلق لائحہ عمل دیں گے۔‘

پی ٹی آئی لاہور کے صدر جمیل اصغر بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف الیکشن کے لیے تیار ہے جو رہنما پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کی جگہ ہر حلقے میں کئی کئی امیدوار اب بھی موجود ہیں۔ ہمارے کارکن بھی پر جوش ہیں مگر خاموش ہیں لیکن الیکشن میں مخالفوں کو ٹف ٹائم دیں گے۔‘

اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے انداز میں انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں۔

پاکستان میں جب بھی عام انتخابات کا وقت آتا ہے تو الیکشن سے پہلے ہی سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے سے اتحاد اور قربت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی الیکشن سے قبل ہی سیاسی صف بندیوں کے اشارے واضح ہو رہے ہیں۔

تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں سیاسی صف بندی بھی بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان زیادہ متحرک اس لیے نظر آرہی ہیں۔ لہذا حتمی تو نہیں لیکن محسوس یہی ہو رہا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو کامیابی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔‘

حسن عسکری کے مطابق، ’پاکستانی سیاسی جماعتوں کی روایت ہے کہ جس کے طاقتور حلقوں سے اچھے تعلقات ہوتے ہیں وہ اکیلے ہی یا چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر اقتدار میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بار بھی مسلم لیگ ن، پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں اور سابق اتحادیوں کو بھول کر زیادہ سے زیادہ طاقت سے حکومت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور آئی پی پی کو ساتھ ملانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔‘

ان کے خیال میں ’پیپلز پارٹی کے پاس اب پی ٹی آئی، مولانا یا دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر چلنے کے علاوہ کوئی آپشن دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن سیاست میں سب کچھ ممکن ہے ہو سکتا ہے پہلے کی طرح انتخابی نتائج کے بعد کوئی مختلف اتحاد بھی بن سکتا ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کے انعقاد پر سب تمام سیاسی جماعتوں کو یقین ہے لیکن جو اس وقت سیاسی صورت حال نظر آرہی ہے اس میں واضح ہوتا جارہا ہے کہ ن لیگ اپنی ہم خیال جبکہ پیپلز پارٹی اپنی بااعتماد جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کرتی نظر آرہی ہے۔ یہ صورت حال اس لیے بنی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نو مئی کے واقعات کے بعد قابل قبول ہے اور انتخابی عمل کا موثر انداز میں حصہ بھی نہیں بن پا رہی۔‘

آئی پی پی کا الیکٹ ایبلز پر انحصار

سلمان غنی نے کہا کہ ’آئی پی پی کیونکہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے بنائی ہے اور یہی وہ رہنما تھے جو الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں لائے تھے۔ اب بھی وہ جن لوگوں کو شامل کر رہے ہیں ان میں بیشتر سابق اراکین اسمبلی ہیں یا کم از کم ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب بھی الیکٹ ایبلز کے ذریعے ہی زیادہ سے زیادہ نشستیں لینا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش ہوگی کہ پنجاب میں واضح طور پر اتنی نشستیں لیں کہ انہیں کوئی اہم کردار مل سکے۔‘

عظمیٰ بخاری کے مطابق ’استحکام پاکستان پارٹی الگ جماعت ہے وہ جس کو چاہیں شامل کریں اور جو مرضی حکمت عملی بنائیں ہمیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

حسن عسکری کہتے ہیں ’جس طرح آئی پی پی بنائی گئی ہے اس سے ظاہر ہے کہ انہیں ن لیگ کو مضبوط کرنے اور اقتدار کے حصول میں روکاوٹیں دور کرنے کے لیے کردار سونپا گیا ہے۔ لہذا اس طرح بننے والی جماعتوں کا انحصار ہی الیکٹ ایبلز پر ہوتا ہے۔‘

آئی پی پی کے رہنما عون چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری جماعت کے سب کے لیے دروازے کھلے ہیں جو بھی آنا چاہتا ہے وہ اپنی مرضی سے شامل ہو رہا ہے۔ ہماری قیادت کی پالیسی واضح ہے کہ جو سیاست کے ذریعے عوامی مسائل حل کرنے کا جذبہ رکھتا ہے ہمارے ساتھ شامل ہوسکتا ہے۔ چوہدری غلام سرور نے بھی اسی جذبے سے ہمیں جوائن کیا مزید بھی شمولیتیں طے ہیں جلد ہی ان کا بھی اعلان کر دیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست