اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے درمیان اتوار کو لبنانی سرحد کے ساتھ فائرنگ کا تبالہ ہوا ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ طویل عرصے سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آ رہے ہیں اور تازہ جھڑپ پچھلے کچھ برسوں میں ہونے والی بدترین جھڑپوں میں سے ایک ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ لبنان سے اسرائیلی سرحدی گاؤں اویوم(Avivim) پر متعدد ٹینک شکن میزائل داغے گئے جبکہ حزب اللہ کے مطابق، اس کے حملے میں اسرائیلی فوج کی ایک گاڑی تباہ ہو گئی اور اس میں سوار افراد ’مارے گئے اور زخمی ہوئے۔‘
تاہم اسرائیل نے اپنے کسی فوجی کی ہلاکت کی تردید کردی۔
اسرائیلی فوج نے کہا اس نے لبنانی گاؤں مارون الراس کی جانب 100 گولے داغے، جہاں سے مبینہ طور پر میزائل چلائے گئے تھے۔ سرحد کے قریب رہنے والوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ جھڑپ ایسے وقت پر ہوئی جب اسرائیل اور اس کے علاقائی حریف ایران کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ اسرائیل ایران کو حقیقی خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اس کا بڑھتا اثرورسوخ روکنے کے لیے اس نے فوجی سطح پر جواب دیا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ان کوششوں میں تیزی آئی ہے کیونکہ اسرائیل کو تشویش ہے کہ علاقے میں ایران نواز عسکری قوتوں کو جدید میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی جا رہی ہے۔
اس ماہ اسرائیل نے حزب اللہ کے اہداف پر کئی حملے کیے ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ کے میزائل پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے ایک حملے میں حزب اللہ کے شام میں سرگرم رکن مارے گئے۔اس کے بعد لبنانی دارالحکومت بیروت میں ڈرون حملہ کیا گیا جس میں حزب اللہ کے میڈیا سینٹر کو نقصان پہنچا۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے گذشتہ ہفتے ایک جذباتی تقریر میں وعدہ کیا تھا کہ اسرائیل کے دنوں حملوں کا جواب دیا جائے گا۔
حزب اللہ کے ٹیلی ویژن چینل نے اتوار کی شب میزائل حملے پر خوشی کا اظہارکیا اور کہا ’اسلامی مزاحمت نے جارحیت کے دو واقعات پر جواب کا سیکرٹری جنرل کا وعدہ پورا کر دیا۔‘
دریں اثنا لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے مشیر سے ٹیلی فون پر بات چیت میں دونوں ملکوں کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اس نازک صورت حال میں مداخلت کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتوار کو کشیدگی کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ایران پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا’ایک نئی سلطنت وجود میں آ گئی ہے جس کا مقصد ہمیں شکست دینا ہے۔ وہ اپنے عسکری گروپوں کو آگے بھیجتے ہیں۔ ہم مختلف عناصر کی قیادت میں انتہاپسند اسلام سے نمٹ رہے ہیں لیکن بالآخر ہمارے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ایران کی طرف سے ہے۔‘
بعد میں اتوار کی شام اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جھڑپیں ختم ہو چکی ہیں لیکن فوج کو’انتہائی چوکس رکھا گیا ہے۔‘
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تازہ جھڑپوں کا انداز وہی ہے جو 2006 میں ہونے والی تباہ کن جنگ کا تھا۔ فریقین کشیدگی میں اضافہ روکنے کے لیے احتیاط سے کام لے رہے ہیں تاکہ شدید لڑائی کے ایک اور دور سے بچا جا سکے۔
2015 میں ہونے والے ایک ایسے ہی واقعے میں حزب اللہ نے سرحد پر حملہ کرکے دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔اس حملے کو اسرائیل نے حزب اللہ کے چھ جنگجوؤں اور شام میں ایک ایرانی جنرل کو مارنے کا جواب خیال کیا تھا۔
2006 کی جنگ کی وجہ سرحد پار سے حزب اللہ کا حملہ تھا جو دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کرنے کے لیے کیا گیا۔
حزب اللہ کو امید تھی وہ ان فوجیوں کو لبنانی قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے اسرائیل پر بطور دباؤ استعمال کر سکے گا۔
تاہم، اس کی بجائے نتیجہ اسرائیل کے ایک شدید حملے کی صورت میں نکلا، جس میں ایک ہزار سے زیادہ لبنانی شہری جان سے گئے۔ حزب اللہ کے راکٹ حملوں میں 44 اسرائیلی شہری بھی مارے گئے۔
اس وقت سے اسرائیل کو تشویش ہے کیونکہ شام کی جنگ میں حزب اللہ زیادہ مضبوط ہو کر ابھری ہے۔اس کے ہزاروں جنگجوؤں کو جنگ کا قابل قدر تجربہ حاصل ہوا ہے اور حسن نصراللہ نے اعلانیہ کہا ہے کہ 2006 کے مقابلے میں حزب اللہ نے زیادہ فاصلے پر ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت والے ہتھیار تیار کر لیے ہیں۔
© The Independent