کون سی سیاسی جماعتیں ن لیگ سے اتحاد کو تیار؟

پاکستان مسلم لیگ ن سندھ کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں بھی متحرک نظر آرہی ہے، جہاں باپ کے ساتھ انتخابی اتحاد کے امکانات روشن نظر آ رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ 21 اکتوبر 2023 کو لاہور میں مینار پاکستان میں جلسے کے دوران اپنے حامیوں کو ہاتھ ہلا رہے ہیں (اے ایف پی)

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان پر پاکستان مسلم لیگ ن کا سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے، جس میں ایک جانب چھوٹی سیاسی جماعتوں سے اتحاد تو دوسری طرف شمولیتوں کے محاذ پر بھی یہ جماعت سب سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے۔

مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری کے مطابق ’کوئٹہ میں معاملات طے پا چکے ہیں اور جلد بڑی شمولیتیں اور اتحاد دیکھنے کو ملیں گے۔ نون لیگ کو پہلے پنجاب تک محدود کر دیا گیا تھا لیکن اب ہم تمام صوبوں میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کریں گے۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما سردار عبدالرحمن کھیتران کے بقول: ’میاں نوز شریف دیگر پارٹی قیادت کے ہمراہ کوئٹہ آ رہے ہیں ہم ان کے ساتھ ملاقات میں بیشتر ایم این اے اور ایم پی ایز ن لیگ میں شامل ہونے کو تیار ہیں، جبکہ باپ پارٹی ن لیگ سے اتحاد کا اعلان بھی کرے گی۔‘

نون لیگی رہنما دو روزہ دورے پر کراچی بھی گئے، جہاں ان کی ایم کیو ایم رہنماوں اور مسلم لیگ فنکشنل کی قیادت سے ملاقات متوقع بتائی جا رہی ہے۔

تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق: ’سیاسی تاریخ پر غور کیا جائے تو ایم کیو ایم اور بلوچستان کے الیکٹ ایبل جس پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں وہی اسلام آباد پر حکمرانی کرتی ہے۔ لیکن ابھی سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ تاہم ن لیگ کو کنگز پارٹی کا تاثر ضرور ختم کرنا پڑے گا۔‘

ن لیگ کی بلوچستان میں سیاسی توقعات

مسلم لیگ ن کی قیادت ان دنوں بلوچستان میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

عظمی بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا: ’سردار آیاز صادق بلوچستان کے الیکٹ ایبلز اور باپ پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے گئے تھے اور واپس آکر نواز شریف کو رپورٹ پیش کر دی ہے۔ لشکری رئیسانی سے بھی میاں شہباز شریف کی لاہور میں ملاقات ہو چکی ہے۔ اگلے ہفتے نواز شریف دیگر رہنماوں کے ساتھ کوئٹہ جا رہے ہیں۔

’تمام معاملات طے پاچکے ہیں باپ پارٹی ن لیگ سے سیاسی اتحاد جبکہ کئی سابق ایم این ایز اور ایم پیز ن لیگ میں شمولیت کے لیے تیار ہیں۔ وہ ن لیگ کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر باقائدہ اعلان کرنے کو تیار ہیں۔‘

باپ پارٹی کے رہنما سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’میاں نواز شریف سے معاملات طے پا چکے ہیں۔ وہ شہباز شریف، مریم نواز، آیاز صادق سمیت دیگر رہنماوں کے ہمراہ ہماری دعوت پر 14 نومبر کو کوئٹہ آرہے ہیں۔ ہم نے ان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا ہے۔

’اس تقریب میں باپ پارٹی نہ صرف ن لیگ سے سیاسی اتحاد کا اعلان کرے گی بلکہ مجھ سمیت 18 سے زیادہ ایم این ایز اور ایم پی ایز نون لیگ میں شمولیت کا باقائدہ اعلان کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں سب سے زیادہ سیاسی رہنما ن لیگ سے حمایت کو تیار ہیں اور جمعیت علما اسلام کے حامی بھی موجود ہیں۔ لہذا ہمیں یقین ہے کہ بلوچستان میں آئندہ صوبائی حکومت ن لیگ اور جے یو آئی اتحادیوں کے ساتھ مل کر بنائیں گے۔‘

 ن لیگ کی دوسرے صوبوں میں اڑان کتنی کامیاب؟

مسلم لیگ ن، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب میں سب سے زیادہ بر سراقتدار اور کئی بار وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت ہے، ایک مرتبہ پھر سیاسی میدان میں متحرک دکھائی دیتی ہے۔

پہلے ایم کیو ایم سے سیاسی اتحاد کر کے سندھ میں پاؤں جمانے کی کوشش کی اور اب اندرون سندھ شہرت رکھنے والی مسلم لیگ فنکشنل سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔

عظمی بخاری کے بقول: ’گذشتہ کئی سال سے ن لیگ کو پنجاب تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب ہم تمام صوبوں میں اپنی ماضی میں موجود حمایت کو بحال کر رہے ہیں۔ سب دیکھیں گے کہ کتنی جماعتیں اتحاد اور کئی رہنما شمولیت کو تیار ہیں۔ آنے والے دنوں میں ملک بھر سے ن لیگ ہی ن لیگ نظر آئے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں بھی ن لیگ کے رہنماوں کو دباؤ ڈال کر دیگر جماعتوں میں شامل کرایا گیا لیکن اب وہ واپس اپنی اصل جماعت میں واپس آرہے ہیں۔‘

عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ ’ہمارے کئی اراکین ایسے ہیں جو پہلے مسلم لیگ ن میں تھے لیکن 2018 کے الیکشن میں انہیں باپ پارٹی کا حصہ بننا پڑا اب دوبارہ اپنی حقیقی جماعت میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’ن لیگ نے اس سے قبل پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اتنی توجہ نہیں دی تھی نہ ہی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا نواز شریف ہر طرف سیاسی حمایت کے لیے بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ابھی تک انہیں ہر صوبے سے حمایت ملتی جا رہی ہے۔‘

سلمان غنی کے بقول، ’پاکستان میں جب اسلام آباد اور راولپنڈی مل کر کوشش کریں تو اسلام آباد میں اسی کی حکومت بنتی ہے جس جماعت کو ایم کیو ایم اور باپ جیسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی فی الحال تو مشکل میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن حتمی طور پر سیاست میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر لشکری رئیسانی ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں، جبکہ ن لیگ کے صوبائی صدر ثنا اللہ زہری پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کے ن لیگ سے اتحاد سے پیپلز پارٹی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ ان جماعتوں کے ساتھ اندرون سندھ مولانا فضل الرحمن کی حمایت بھی کافی زیادہ موجود ہے۔ وہ بھی اگر ن لیگ کے ساتھ سندھ میں اتحادی بن گئے، تو پی پی پی کے لیے وہاں حالات ساز گار نہیں ہوں گے۔‘

سلمان غنی کے مطابق ’اس ساری صورت حال میں ن لیگ کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ عوامی طور پر جمہوریت کے بجائے کنگز پارٹی ہونے کا تاثر کیسے زائل کریں گے؟‘

ن لیگی رہنما رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم پر کسی ادارے کا پسندیدہ ہونے کا الزام درست نہیں۔کیا ہر بار ن لیگ کے لیے مشکلات کا ہی مطلب ہے کہ ہمیں کسی ادارے کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس بار اگر ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملا تو اعتراض کیوں ہے؟ ہمیشہ مشکلات کا سامنا بھی ہم نے ہی کیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست